دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
فرماتے تھے اور وہ اختلافات صرف مسئلے کی حد تک ہوتے تھے۔تلخیٔ کلام کی نوبت نہیں آتی تھی اور اختلاف رائے پر کبھی غصہ یا ناگواری کا اظہار نہ فرماتے تھے اگر چہ اختلاف کرنے والا آپ کا شاگرد ہی کیوں نہ ہو۔ حضرت مولانا عاشق الٰہی صاحب جو کئی سال تک حضرت کے زیر سایہ فتاوی کے جوابات دیتے رہے فرماتے ہیں ۔ ’’احقر کو بہت سی جگہ اختلاف رائے بھی ہوتا، بندہ عرض کردیتا کہ یہ جواب آپ کی رائے کے مطابق لکھ دیا ہے آپ دستخط فرمادیں ، میں دستخط نہیں کروں گا،میری گذارش بشاشت سے قبول فرماتے اور دستخط فرمادیتے؟۔ (البلاغ ص: ۷۳۰)شیخ سے فقہی اختلاف نیز آپ نے بعض مسائل میں اپنے شیخ و مربی حکیم الامت حضرت تھانویؒ سے فقہی اختلاف فرمایا ہے جس سے یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ شیخ سے فقہی اختلاف اپنے نفس کی اصلاح میں مانع نہیں اور شیخ کو بھی مرید کے فقہی اختلاف سے اظہار ناراضگی یا انقباض نہ ہونا چاہئے، بلکہ شیخ کی اپنی غلطی ہو تو اس سے رجوع ہوجانا چاہئے جیسا کہ حضرت تھانویؒ اور حضرت مفتی صاحبؒ کا طرز عمل تھا( جس کی تفصیل جواہر الفقہ میں موجود ہے)۔ خلاصہ یہ ہے کہ حضرت والد صاحب قدس سرہ کا مذاق یہ تھا کہ اپنے موقف پر مضبوطی سے قائم رہنے کے باوجود طعن و تشنیع اور دل آزار اسلوبِ بیان سے مکمل پرہیز کیا جائے۔ (البلاغ ص: ۴۶۸)مداہنت سے کلی اجتناب لیکن اس نرمی کا یہ مطلب نہیں کہ حق کو حق یا باطل کو باطل کہنے میں مداہنت سے