دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
بسم اﷲ الرحمن الرحیم، من سلیمان بن داؤد الی بلقیس ابنۃ ذی شرح وقومہا۔ ان لا تعلوا، الخ۔ بلقیس نے جب یہ خط اپنی قوم کو سنایا تو اس نے قوم کی آگاہی کے لیے سلیمان علیہ السلام کا نام پہلے ذکر کردیا، قرآن کریم میں جو کچھ آیا ہے وہ بلقیس کا قول ہے، قرآن میں اس کی تصریح نہیں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے اصل خط میں بسم اللہ مقدم تھی، یا سلیمان علیہ السلام کا نام، اوریہ بھی ہوسکتا ہے کہ سلیمان علیہ السلام کا نام لفافے کے اوپر لکھا ہو اورا ندر بسم اللہ سے شروع ہو بلقیس نے جب اپنی قوم کو خط سنایا تو حضرت سلیمان علیہ السلام کا نام پہلے ذکر کردیا۔ مسئلہ: خط نویسی کی اصل سنت تو یہی ہے کہ ہر خط کے شروع میں بسم اللہ لکھی جائے، لیکن قرآن و سنت کے نصوص و اشارات سے حضرات فقہاء نے یہ کلیہ قاعدہ لکھا ہے کہ جس جگہ بسم اللہ یا اللہ تعالیٰ کا کوئی نام لکھا جائے اگر اس جگہ اس کاغذ کی بے ادبی سے محفوظ رکھنے کا کوئی اہتمام نہیں بلکہ وہ پڑھ کر ڈال دیا جاتا ہے تو ایسے خطوط اور ایسی تحریر میں بسم اللہ یا اللہ کاکوئی نام لکھنا جائز نہیں کہ وہ اس طرح اس بے ادبی کے گناہ کا شریک ہوجائے گا، آج کل جو عموماً ایک دوسرے کو خطوط لکھے جاتے ہیں ان کا حال سب جانتے ہیں کہ نالیوں اور گندگیوں میں پڑے نظر آتے ہیں اس لیے مناسب یہ ہے کہ ادائے سنت کے لیے زبان سے بسم اللہ کہہ لے تحریرمیں نہ لکھے۔ایسی تحریر جس میں کوئی آیت قرآنی لکھی ہو، کیا کسی کافرمشرک کے ہاتھ میں دینا جائز ہے؟ یہ خط حضرت سلیمان علیہ السلام نے بلقیس کو اس وقت بھیجا ہے جب کہ وہ مسلمان نہیں تھیں حالانکہ اس خط میں بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھا ہوا تھا، جس سے معلوم ہوا