دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
وتاب الیہ وغفرلہ‘‘۔ (از تفسیر قرطبی، وذکرہ فی البحر المحیط ایضاً) ترجمہ: ہم میں سے کسی کے لیے آج یہ جائز نہیں کہ آدم علیہ السلام کی طرف یہ لفظ عصیان منسوب کرے بجز اس کے کہ قرآن کی اس آیت کے یا کسی حدیث نبوی کے ضمن میں آیا ہو، وہ بیان کرے، لیکن یہ کہ اپنی طرف سے یہ لفظ ان کی طرف منسوب کرنا ہمار ے اپنے قریبی آباء و اجداد کے لیے ہی جائز نہیں ، پھر ہمار ے سب سے پہلے باپ جو ہر حیثیت میں ہمارے آباء سے مقدم اور اعظم و اکرم ہیں ، اور اللہ تعالیٰ کے پیغمبر معزز ہیں ، جن کا عذر اللہ تعالیٰ نے قبول فرمایا، اور معافی کا اعلان کردیا، ان کے لیے تو کسی حال میں جائز نہیں ، اسی لیے قریشی ابو نصر نے فرمایا کہ اس لفظ کی وجہ سے حضرت آدم علیہ السلام کو عاصی اور غاوی کہنا جائز نہیں ۔ اور قرآ ن کریم میں جہاں کہیں کسی نبی یا رسول کے بارے میں ایسے الفاظ آئے ہیں ، یا تو وہ خلاف اولیٰ امور ہیں یا نبوت سے پہلے کے ہیں ، اس لیے بضمن آیت قرآن وروایات حدیث تو ان کا تذکرہ درست ہے لیکن اپنی طرف سے ان کی شان میں ایسے الفاظ استعمال کرنے کی اجازت نہیں ۔ (قرطبی) (معارف القرآن ۶؍۱۴۷، سورۂ طٰہٰ)انبیاء کے معصوم ہونے کے باوجود ان کو گناہوں سے استغفار کا حکم کیوں دیا گیا؟ اگر کبھی کوئی خطاء سرزد ہوجائے جو آپ کی عصمت نبوت کی بنا پر در حقیقت گناہ نہیں بلکہ صرف ترک افضل ہوگا مگر آپ کی شان ارفع کے اعتبار سے صورۃً خطا ہے، اس لیے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) اپنی اس ظاہری خطا کی معافی مانگتے رہے۔ انبیاء علیہم السلام سے معصوم ہونے کے باوجود بعض اوقات اجتہاد میں خطا ہوجاتی ہے اور اجتہادی خطا قانون شرع میں گناہ نہیں بلکہ اس پر بھی اجر ملتا ہے مگر انبیاء