دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
واذا جمع ہذہ العلوم وکان مجانیا للأہواء والبدع متدرعا بالورع محترزا عن الکبائر غیر مصر علی الصغائر جاز لہ أن یتقلد القضاء ویتصرف فی الشرع بالاجتہاد والفتوی ویجب علی من لم یجمع ہذہ الشرائط ان یقلدہ فیما یعنُّ لہ من الحوادث۔ انتہی کلام البغوی ہوگا تو وہ شخص اس وقت مجتہد ہوگا اور یہ شرط نہیں کہ سب علموں کو بالکل جانتا ہو حتی کہ کوئی چیز ان علوم کی اس سے باقی نہ رہے ، اور اگر ان علوم پنجگانہ میں سے ایک قسم سے بھی ناواقف ہو تو اس کی سبیل دوسرے کی تقلید کرنا ہے، اگر چہ وہ شخص ایک مذہب میں کسی کے ائمہ سلف میں سے ماہر کامل ہو تو ایسے شخص کو عہدہ قضاء اختیار کرنا اور فتوی دینے کا امید وار ہونا درست نہیں ۔ اور جس صورت میں کہ ان پانچوں علوم کا جامع اور خواہشات نفسانی اور بدعتوں سے علیحدہ ہو اور ورع اور تقویٰ کو شعار بنایا ہو اور کبیرہ گناہوں سے محترز ہو اور صغیرہ پر اصرار نہ رکھتا ہو تواس کو قاضی ہونا اور اپنے اجتہاد سے شرع میں تصرف کرنا جائز ہے، اور اس شخص پر جو ان شرطوں کا جامع نہیں ، تقلید کرنی شخصِ جامع کی واجب ہے ان حادثوں میں کہ اس کو پیش آویں ۔ تمام ہوا کلام بغوی کا۔ الغرض نصوص متواترہ سے یہ امرتو بالکل محقق ہوگیاکہ جو مسئلہ معلوم نہ ہو اس میں علماء کی تقلید کرنی چاہئے، اس لیے مطلق تقلید کو تمام محققین اہل حدیث بھی واجب تسلیم کرتے ہیں ۔ اکثر اہل حدیث مطلق تقلید کی فرضیت کے قائل بھی ہیں ۔ (جواہر الفقہ ۲؍۲۲)تقلید شخصی کی بحث اب خلاف تقلید شخصی میں رہا (یعنی کسی امام معین کی تقلید ہر مسئلہ اور ہر حکم میں