دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
مفید کم ہے اور مضر زیادہ۔ چنانچہ اس کے بعد میں نے ’’ختم نبوت‘‘ پر اس نقطۂ نظر سے نظر ثانی کی اور اس میں ایسے حصے حذف کردئیے جن کا مصرف دلآزاری کے سوا کچھ نہ تھا، اور اس کے بعد کی تحریروں میں دلآزار اسلوب سے مکمل پرہیز شروع کردیا۔ (البلاغ ص:۴۶۵)کسی رسالہ کی تردید یاکسی فرقہ پر تنقید کا طریقہ دوسرے نظریات کی تردید میں حضرت والد صاحبؒ کا ایک اصول یہ تھا کہ جس شخص یا گروہ پر تنقید کی جارہی ہے، پہلے اس کے نظریات و افکار اور اس کے منشا و مراد کی اچھی طرح تحقیق کرلی جائے، اور اس کی طرف کوئی ایسی بات منسوب نہ کی جائے جو اس نے نہیں کہی، یا جو اس کی عبارتوں کے منشاو مراد کے خلاف ہو۔ آج کل بحث و مباحثہ و مناظروں کی گرم بازاری میں احتیاط و تثبت کے اس پہلو کی رعایت بہت کم کی جاتی ہے۔ اور دوسرے کی تردید کے جوش میں اس کی غلطی کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اس طرح بعض ایسی باتیں مخالف کی طرف منسوب کردی جاتی ہیں جو اس نے نہیں کہی ہوتیں ۔ یہ طرز عمل اول تو انصاف کے خلاف ہے دوسرے اس سے تردید کا فائدہ بھی حاصل نہیں ہوتا، بسا اوقات اس کے نتیجہ میں بحث و مباحثہ کا ایک غیر متناہی سلسلہ شروع ہوجاتا ہے جو افتراق وانتشار پر منتج ہوتا ہے۔ اس سلسلہ میں حضرت والد صاحب قدس سرہ نے احقر کو اس زریں اصول کی تلقین فرمائی تھی کہ یوں تو انسان کو اپنے ہر قول وفعل میں محتاط ہونا چاہئے لیکن خاص طور پر جب دوسروں پر تنقید کا موقع ہو تو ایک ایک لفظ یہ سوچ کر لکھو کہ اسے عدالت میں ثابت کرنا پڑے گا اور کوئی ایسا دعویٰ جزم کے ساتھ نہ کرو، جسے شرعی اصولوں کے مطابق