دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
کیونکہ در حقیقت جو قرآن اردو یا انگریزی میں نقل کیا گیا وہ قرآن کہلانے کا مستحق نہیں ----- قرآن کریم کے جس طرح معانی مقصود ہیں اسی طرح الفاظ بھی مقصود ہیں ، اور الفاظِ قرآن کے ساتھ خاص خاص احکام شرعیہ بھی متعلق ہیں ۔ (معارف القرآن سورۃ البقرۃ ۱؍۳۳۲)احکام الٰہیہ کی دو قسمیں تکوینی و تشریعی احکام الٰہی دو طرح کے ہوتے ہیں ایک تشریعی احکام جن میں ایک قانون بتلایا جاتا ہے اور اس کی خلاف ورزی کی سزا بتلادی جاتی ہے، مگر کرنے والے کو کسی جانب پر مجبور محض نہیں کیا جاتا بلکہ اس کو ایک درجہ کا اختیار دیا جاتا ہے، وہ اپنے اختیار سے اس قانون کی پابندی کرے یا خلاف ورزی کرے اور ایسے احکام عموماً ان مخلوقات پر عائد ہوئے ہیں جو ذوی العقول کہلاتے ہیں جیسے انسان اور جِن، یہیں سے ان میں مومن و کافراور مطیع و نافرمان کی دو قسمیں پیدا ہوجاتی ہیں ۔ دوسری قسم احکام کی تکوینی اور تقدیری احکام ہیں ان کی تنفیذ جبری ہوتی ہے۔ کسی کی مجال نہیں کہ سرمو ان کے خلاف کرسکے، ان احکام کی تعمیل کل مخلوقات کرتی ہیں ان میں انسان وجن بھی شامل ہیں تکوینی احکام میں ان کے لیے جو مقدر کردیا گیا ہے مؤمن ہو یا کافر متقی ہو یا فاسق سب کے سب اسی تقدیری قانون کے تابع چلنے پر مجبور ہیں ۔ (معارف القرآن ۸؍۷۰۳)رسول اللہ ﷺ کے تعلق سے احکام تشریعیہ کی تین صورتیں مَا اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِنْ رَبِّکُمْ۔(پارہ:۶) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو احکام امت کو دئیے ان میں ایک تو وہ ہیں جو قرآن میں صراحۃً مذکور ہیں ۔