دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
کہ دوسرے مسلکوں پر حنفیت کی ترجیح قائم کردیں ، امام ابو حنیفہؒ کے مسائل کے دلائل تلاش کریں ، اور دوسرے ائمہ کے مسائل پر آپ کے مسلک کی ترجیح ثابت کریں ، یہ رہا ہے محور ہماری کوششوں کا ، تقریروں کا اور علمی زندگی کا۔ اب غور کرتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ کس چیز میں عمر برباد کی؟ ابو حنیفہؒ ہماری ترجیح کے محتاج ہیں کہ ہم ان پر کوئی احسان کریں ؟ ان کو اللہ تعالیٰ نے جو مقام دیا ہے وہ مقام لوگوں سے خود اپنا لوہا منوائے گا وہ تو ہمارے محتاج نہیں ‘‘۔ اور امام شافعیؒ، مالکؒ، اور احمد بن حنبلؒ اور دوسرے مسلک کے فقہاء جن کے مقابلے میں ہم یہ ترجیح قائم کرتے آئے ہیں کیا حاصل ہے اس کا؟ اس کے سوا کچھ نہیں کہ ہم زیادہ سے زیادہ اپنے مسلک کو صواب محتمل الخطاء (درست مسلک جس میں خطاء کا احتمال موجود ہے) ثابت کردیں ، اور دوسرے کے مسلک کو ’’خطاء محتمل الصواب (غلط مسلک جس کے حق ہونے کا احتمال موجو دہے) کہیں ، اس سے آگے کوئی نتیجہ نہیں ، ان تمام بحثوں ، تدقیقات اور تحقیقات کا جن میں ہم مصروف ہیں پھر فرمایا: ’’ارے میاں ! اس کا تو کہیں حشر میں بھی راز نہیں کھلے گا کہ کون سا مسلک صواب تھا، اورکون سا خطاء، اجتہادی مسائل صرف یہی نہیں کہ دنیا مین ان کا فیصلہ نہیں ہوسکتا، دنیا میں بھی ہم تمام تر تحقیق و کاوش کے بعد یہی کہہ سکتے ہیں کہ یہ بھی صحیح ہے اور وہ بھی صحیح، یا یہ کہ یہ صحیح ہے لیکن احتمال موجود ہے کہ یہ خطاء ہو، اور وہ خطا ہے اس احتمال کے ساتھ کہ صواب ہو، دنیا میں تو یہ ہے ہی، قبر میں بھی منکر نکیر نہیں پوچھیں گے کہ رفع یدین حق تھا یا ترک رفع یدین حق تھا؟ آمین بالجہر حق تھی یا بالسر حق تھی؟ برزخ میں بھی اس کے متعلق سوال نہیں کیا جائے گا اور قبر میں بھی یہ سوال نہیں ہوگا‘‘۔اللہ تعالیٰ کسی امام و مجتہد کو قیامت میں رسوانہ کرے گا حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے الفاظ یہ تھے: