دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
اجتہاد میں خطاء کرنے والے مجتہد اور اس کے متبعین کے لیے بھی اجتہاد حق و صحیح ہے۔ اس پر عمل کرنے سے اس کی نجات ہوجائی گی خواہ یہ اجتہاد اپنی ذات میں خطا ہی ہو مگر اس پر عمل کرنے والوں کو کوئی گناہ نہیں ۔ اور جن حضرات نے یہ فرمایا ہے کہ حق ان دونوں میں ایک ہی ہے دوسرا غلط اور خطا ہے اس کا حاصل بھی اس سے زیادہ نہیں کہ اصل مراد حق تعالیٰ اور مطلوب خداوندی تک نہ پہنچنے کی وجہ سے اس مجتہد کے ثواب میں کمی آجائے گی، اور یہ کمی اس وجہ سے ہے کہ اس کا اجتہاد حق بات تک نہ پہنچا۔ لیکن یہ مطلب ان کا بھی نہیں ہے کہ مجتہد خاطی پر کوئی ملامت ہوگی یا اس کے متبعین کو گہنگار کہا جائے گا۔ تفسیر قرطبی میں اس مقام پر ان تمام مباحث کو پوری تفصیل سے لکھا ہے اہل علم وہاں دیکھ سکتے ہیں ۔ (معارف القرآن ۶؍۲۱۰، انبیاء)مجتہد فیہ مسائل میں کسی مذہب کو یقینی طور سے صواب یاخطا کا فیصلہ کردینے کا حق کسی کو نہیں یہاں سے ایک بہت اہم اصولی بات واضح ہوگئی کہ جو اجتہادی اختلاف شرعی اجتہاد کی تعریف میں داخل ہے اس میں اپنے اپنے اجتہاد سے جس امام نے جو جانب اختیار کرلی اگر چہ عند اللہ اس میں صواب اور صحیح صرف ایک ہے، دوسرا خطاء ہے لیکن یہ صواب وخطاء کا فیصلہ صرف حق تعالیٰ کے کرنے کا ہے وہ محشر میں بذریعہ اجتہاد صواب پر پہنچنے والے عالم کو دوہرا ثواب عطا فرمائیں گے اور جس کے اجتہاد نے خطاء کی ہے اس کو ایک ثواب دیں گے، اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو اجتہادی اختلاف میں یہ کہنے کا حق نہیں کہ یقینی طور پر یہ صحیح ہے دوسرا غلط ہے۔ ہاں اپنی فہم و بصیرت کی حد تک ان دونوں میں جس کو وہ اقرب الی القرآن والسنہ سمجھے اس کے متعلق یہ کہہ سکتا ہے کہ میرے نزدیک یہ