دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
کاوش نہ کریں بلکہ سرسری بحث فرمادیں اور ان لوگوں سے آپ خود بھی کوئی سوال اس کے متعلق نہ کریں کیونکہ جتنی بات ضروری تھی وہ وحی میں آگئی، غیر ضروری سوالات اور تحقیقات شانِ انبیاء کے خلاف ہے۔ ان دونوں جملوں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو تعلیم دی گئی وہ در حقیقت علماء امت کے لیے اہم رہنما اصول ہے کہ جب کسی مسئلہ میں اختلاف پیش آئے تو جس قدر ضروری بات ہے اس کو واضح کرکے بیان کردیا جائے اس کے بعد بھی لوگ غیر ضروری بحث میں الجھیں تو ان کے ساتھ سرسری گفتگو کرکے بحث ختم کردی جائے اپنے دعوے کے اثبات میں کاوش اور ان کی بات کی تردید میں بہت زور لگانے سے گریزکیا جائے کہ اس کا کوئی خاص فائدہ تو ہے نہیں مزید بحث و تکرار میں وقت کی اضاعت ہے اور باہم تلخی پیدا ہونے کاخطرہ بھی۔ دوسری ہدایت دوسرے جملہ میں یہ دی گئی ہے کہ اصحاب کہف کی زائد تحقیقات اور لوگوں سے سوال وغیرہ میں نہ پڑیں اور دوسروں سے سوالات کا ایک پہلو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کی جہالت یا ناواقفیت ظاہرکرنے یا ان کو رسوا کرنے کے لیے سوال کیا جائے یہ بھی اخلاق انبیاء کے خلاف ہے اس لیے دوسرے لوگوں سے دونوں طرح کے سوال کرنا ممنوع کردیا گیا یعنی تحقیق مزید کے لیے ہو یا مخاطب کی تجہیل و رسوائی کے لیے ہو۔ (معارف القرآن سورۂ کہف ۵؍ ۵۶۸)بے ہودہ سوالوں کے جواب میں حلم و صبر کی ضرورت آیات مذکورہ (لَنْ نُّوْمِنَ لَکَ حَتّٰی تَفَجَُرلَنَا مِنَ الاَرْضِ یَنْبُوْعًا-بنی اسرائیل پ ۱۵) میں جو سوالات اور فرمائش رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے ایمان لانے کی شرط قرار دے کر کی گئیں وہ سب ایسی ہیں کہ ہر انسان ان کو سن کر ایک قسم کا تمسخر