دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
کرڈالتے، سب کے سب مسلمان ہی ہوجاتے، ان میں کوئی اختلاف نہ رہتا، مگر بتقاضائے حکمت اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کسی کو کسی عمل پر مجبور نہیں کرتے بلکہ اس نے انسان کو ایک قسم کا اختیار سپرد کردیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اختلاف سے مراد اس جگہ دین حق اور تعلیم انبیاء کی مخالفت ہے۔ اجتہادی اختلاف جو ائمہ دین اور فقہائے اسلام میں ہونا ناگزیر ہے اور عہد صحابہ سے ہوتا چلا آیا ہے۔ وہ اس میں داخل نہیں ۔ نہ وہ رحمت الٰہی کے خلاف ہے، بلکہ مقتضائے حکمت ورحمت ہے، جن حضرات نے ائمہ مجتہدین کے اختلافات کو اس آیت کی رو سے غلط خلاف رحمت قرار دیا ہے، یہ خود سیاق آیت کے بھی خلاف ہے۔ اور صحابہ و تابعین کے تعامل کے بھی ، واللہ اعلم۔ (معارف القرآن ۴؍۶۸۰، ہود)اختلاف حق اور اختلاف رحمت کا معیار اختلاف رائے جو اپنے حدود کے اندر ہو یعنی قرآن وسنت کے قطعی اور اعتقادی مسائل اور قطعی احکام میں نہ ہو صرف فروعی مسائل اجتہادیہ میں ہو، جن میں قرآن و سنت کی نصوص ساکت یا مبہم (یا متعارض) ہیں اور وہ بھی جنگ و جدل اور لعن وطعن کی حد تک نہ پہنچے تو وہ بجائے مضر ہونے کے مفید اور ایک نعمت ورحمت ہے۔ جیسے کائنات عالم کی تمام چیزوں کی شکل وصورت ، رنگ وبو اور خاصیت و منفعت میں اختلاف ہے، حیوانات میں لاکھوں مختلف قسمیں ، بنی نوع انسان ہیں ، مزاجوں اور پیشوں ، صنعتوں اوررہن سہن کے طریقوں میں اختلاف، یہ سب اس عالم کی رونق بڑھانے والے اور بے شمار منافع کے اسباب ہیں ۔ (معارف القرآن ۳؍۳۶۵، انعام)اجتہادی اختلاف کی مثال اجتہادی اختلاف کی مثال محسوسات میں ایسی ہے جیسے شہر کی بڑی سڑکوں کو چلنے