دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
(۱۱) حضرت عبد اللہ بن عمر نے فرمایا کہ جب کسی کو دیکھو کہ کسی صحابی کو برا کہتا ہے تو اس سے کہو کہ جو تم میں زیادہ برا ہے اس پر اللہ کی لعنت، یہ ظاہر ہے کہ زیادہ برے صحابہ تو ہو نہیں سکتے، یہی ہوگا جو ان کی برائی کررہا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ صحابۂ کرام میں سے کسی کو برا کہنا سبب لعنت ہے۔ (معارف القرآن ۸؍۳۸۱)صحابۂ کرام کے متعلق ایک ضروری ہدایت (۱۲) عوام بن حوشبؒ نے فرمایا کہ میں نے اس امت کے پہلے لوگوں کو اس بات پر مستقیم اور مضبوط پایا ہے کہ وہ لوگوں کو یہ تلقین کرتے ہیں کہ صحابۂ کرام کے فضائل اور محاسن بیان کیا کرو، تاکہ لوگوں کے دلوں میں ان کی محبت پیدا ہو، اور وہ مشاجرات اور اختلافات جو ان کے درمیان پیش آئے ہیں ان کا ذکر نہ کیا کرو۔ جس سے ان کی جرأت بڑھے۔ (اوروہ بے ادب ہوجائیں )۔ (معارف القرآن ۸؍۳۸۲)جنگ جمل کا مختصر واقعہ حضرت ام المومنین صدیقہ عائشہؓ کا سفر بصرہ اور جنگ جمل کے واقعہ پر روافض کے ہفوات اوپر یہ بات وضاحت کے ساتھ آچکی ہے کہ آیت مذکورہ میں ’’وَقَرْنَ فِی بُیُوْتِکُنَّ‘‘ کا مفہوم خود قرآنی اشارات بلکہ تصریحات سے نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے اور آپ کے بعد صحابہ کرام کے اجماع سے یہ ثابت ہے کہ مواقع ضرورت اس سے مستثنیٰ ہیں ، جن میں حج و عمرہ وغیرہ دینی ضروریات شامل ہیں ، صدیقہ عائشہؓ اور