دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
کے استعمال کی اجازت قرآن کریم نے دی ہے۔ (جواہر الفقہ ۲؍۲) مضطر شرعی اصطلاح میں اس شخص کو کہا جاتا ہے جس کی جان خطرہ میں ہو معمولی تکلیف یا ضرورت سے مضطر نہیں کہا جاسکتا، جو شخص بھوک سے ایسی حالت پر پہنچے گا کہ اگر کچھ نہ کھائے تو جان جاتی رہے گی اس لیے دوشرطوں کے ساتھ یہ حرام چیز کھالینے کی گنجائش دی گئی ہے، ایک شرط یہ ہے کہ مقصود جان بچانا ہو کھانے کی لذت حاصل کرنا مقصود نہ ہو ۔ دوسری شرط یہ ہے کہ صرف اتنی مقدار کھائے جو جان بچانے کے لیے کافی ہو پیٹ بھر کر کھانا یا قدر ضرورت سے زائد کھانا اس وقت بھی حرام ہے۔ (معارف القرآن ۱؍۴۲۰) خلاصہ یہ ہے کہ کسی حرام چیز کا حلال ہونا تین شرطوں کے ساتھ مشروط ہے۔ اول یہ کہ حالت اضطرار کی ہو کہ حرام کے استعمال نہ کرنے میں جان کا خطرہ ہے۔ دوسرے یہ کہ خطرہ بھی محض موہوم نہ ہو بلکہ کسی معتمد حکیم یا ڈاکٹر کے کہنے کی بنا پر عادۃً یقینی جیسا ہو۔ تیسرے یہ کہ اس حرام کے استعمال سے جان بچ جانا بھی عادۃً یقینی ہو یہ سب شرائط قرآن کریم ہی کے ارشادات سے مستفاد ہیں ۔ (جواہر الفقہ ۱؍۳۰)حلال کو حرام کرلینے کی تین صورتیں اورا ن کا حکم ’’لَا تُحَرِّمُوْا طَیِّبَاتِ مَا اَحَلَّ اللّٰہُ لَکُمْ‘‘ (پ۷، سورۂ مائدہ) کسی حلال چیز کو حرام قرار دینے کے تین درجے ہیں ۔ایک یہ کہ اعتقاداً اس کو حرام سمجھ لیا جائے۔ دوسرے یہ کہ قولاً کسی چیز کو اپنے لیے حرام کرے، مثلاً قسم کھائے کہ ٹھنڈا پانی نہ پیوں گا، یا فلاں قسم کا حلال کھانا نہ کھاؤں گا یا فلاں جائز کام نہ کروں گا۔ تیسرا یہ کہ اعتقاد وقول تو کچھ نہ ہو محض عملاً ہمیشہ کے لیے کسی حلال چیز کو چھوڑ دینے کا عزم کرے۔