دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
یہ تو ایک مثال تھی ورنہ حضرت والد صاحب نے فتویٰ نویسی کے پورے اسلوب میں عام روش سے ہٹ کرا یسا طریقہ اختیار کیا ہے جس سے ایک طرف فتوی کی شوکت اورفقہی باریکیاں برقرار رہیں ، اور دوسری طرف اس کی عبارت میں سلاست اور عام فہمی پیدا ہوجائے، چنانچہ جو حضرات آپ سے فتوی کی تربیت لیتے ان کو بھی آپ اس بات کی تاکید فرماتے اس کی باقاعدہ مشق کراتے اورا ن کی عبارت کی اصلاح پر کافی وقت خرچ کرتے تھے۔ (البلاغ ص: ۴۲۸)مفصل فتویٰ لکھنے کا طریقہ مفصل فتووں میں بعض اوقات مسئلہ کے احکام، اس کے دلائل اور شبہات کے جوابات اس طرح گڈمڈ ہوجاتے ہیں کہ عام پڑھنے والے کا ذہن الجھ جاتا ہے اور سوال کا جواب معلوم کرنے کے لیے نہ صرف پورا فتویٰ پڑھنا پڑتا ہے بلکہ بعض اوقات پورے فتویٰ کو پڑھ کر بھی بآسانی جواب کا خلاصہ ذہن میں نہیں بیٹھتا، حضرت والدؒ صاحب کا انداز فتویٰ نویسی جس کی آپ دوسروں کو بھی تاکید فرماتے تھے اس سے مختلف تھا۔ آپ فرماتے تھے کہ فتویٰ میں مسئلہ کا مختصر حکم اور اس کے مفصل دلائل بالکل ممتاز ہونے چاہئے تاکہ جو شخص صرف حکم معلوم کرنا چاہتا ہو وہ بآسانی حکم معلوم کرلے اورجس شخص کو دلائل سے دلچسپی ہو وہ دلائل بھی پڑھے، فتوے میں عام آدمی کے لیے تو صرف حکم ہی ہوتا ہے اور دلائل اہل علم کے لیے ہوتے ہیں ، اس لیے ایک عام آدمی کو فتوے کے شروع ہی میں مختصراً یہ بات واضح طور سے معلوم ہونی چاہئے کہ جس چیز کے بارے میں سوال کیا گیا ہے اس کا مختصراً جواب کیا ہے؟ اس جواب کے بعد اہل علم کے لیے دلائل کی تفصیل، حوالے اور شبہات کے جوابات جتنی تفصیل سے چاہیں دے دئیے جائیں ۔