دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
جانب نہ واجب ہے نہ حرام بلکہ اختیاری ہے، لیکن یہ اختیار عوام کو دے دیا جائے تو کوئی نظام نہیں چل سکتا اسی لیے نظام کی ذمہ داری حکومت پر ہے۔ آیت مذکورہ میں اولوالامر کی اطاعت سے علماء اور حکام دونوں کی اطاعت مراد ہے۔ اس لیے اس آیت کی رو سے فقہی تحقیقات میں فقہاء کی اطاعت اور انتظامی امور میں حکام وامراء کی اطاعت واجب ہوگئی۔ (معارف القرآن ۲؍۴۵۲)مسئلۂ تقلید میں افراط و تفریط، اندھی تقلید کی ممانعت لا تَغْلُوْا فِیْ دِیْنِکُمْ۔ (سورۂ مائدہ پ۶) حضرت شاہ ولی اﷲ صاحب قدس سرہ نے لکھا ہے کہ اسلام میں بدعت کو اس لیے سخت جرم قرار دیا کہ وہ تحریفِ دین کا راستہ ہے، پچھلی امتوں میں یہی ہوا کہ انہوں نے اپنی کتاب اور اپنے رسول کی تعلیمات پر اپنی طرف سے اضافے کرلیے، اور ہر آنے والی نسل ان میں اضافے کرتی رہی، یہاں تک کہ یہ پتہ نہ رہا کہ اصل دین کیا تھا اور لوگوں کے اضافے کیا ہیں ، شاہ صاحبؒ نے اپنی کتاب ’’حجۃ اﷲ البالغہ‘‘ کے اندر یہ بیان فرمایا ہے کہ تحریف دین کے دنیا میں کیا کیا اسباب پیش آئے ہیں اور شریعت اسلام نے ان سب کے دروازوں پر کس طرح پہرہ بٹھایا ہے کہ کسی سوراخ سے یہ وبا امت میں نہ پھیلے، ان اسباب میں سے دین کے بارے میں تعمق و تشدّد یعنی غلو فی الدین کو بڑا سبب قرار دیا ہے مگر افسوس ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قدر اہتمام اور شریعت کی اتنی پابندیوں کے باوجود امت مسلمہ اسی غلو کی بری طرح شکار ہے۔ دین کے سارے ہی شعبوں میں اس کے آثار نمایاں ہیں ، ان میں سے بالخصوص جو چیز ملت کے لیے مہلک اور انتہائی مضر ثابت ہورہی ہے وہ دینی مقتداء وپیشواؤں کا معاملہ ہے۔ مسلمانوں کی ایک جماعت تو اس پر گئی ہے کہ مقتداء و پیشواء علماء وعرفاء کوئی چیز نہیں ،