دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
سدِّ ذرائع کا قاعدہ ’’وَلَا تَقْرَبَا ہٰذِہِ الشَّجَرَۃَ ‘‘ (سورۂ بقرہ، پ۱) یعنی اس درخت کے قریب نہ جاؤ ظاہر ہے کہ اصل مقصد تو یہ تھا کہ اس درخت یا اس کے پھل کو نہ کھاؤ مگر احتیاطی حکم دیا گیا کہ اس کے قریب بھی نہ جاؤ، اس سے اصول فقہ کا مسئلہ سد ذرائع ثابت ہوا، یعنی بعض چیزیں اپنی ذات میں ناجائز یا ممنوع نہیں ہوتیں لیکن جب یہ خطرہ ہو کہ ان چیزوں کے اختیار کرنے سے کسی حرام نا جائز کام میں مبتلا ہوجائے گا، تو اس جائز چیز کو بھی روک دیا جاتا ہے جیسے درخت کے قریب جانا ذریعہ بن سکتا تھا، اس کے پھل پھول کھانے کا اس ذریعہ کو بھی منع فرمایا گیا اسی کا نام اصول فقہ کی اصطلاح میں سد ذرائع ہے۔ (معارف القرآن ۱؍۱۹۵)سدِّ ذرائع کے قاعدہ کی تفصیل جس طرح اصول عقائد توحید، رسالت، آخرت تمام انبیاء علیہم السلام کی شرائع میں مشترک اور متفق علیہ چلے آئے ہیں ، اسی طرح عام معاصی اورفواحش و منکرات ہر شریعت ومذہب میں حرام قرار دئیے گئے ہیں لیکن شرائع سابقہ میں ان کے اسباب و ذرائع کو مطلقاً حرام نہیں گیا گیا جب تک کہ ان کے ذریعہ کوئی جرم واقع نہ ہوجائے شریعت محمدیہ علی صاحبہا الصلوۃ والسلام چونکہ قیامت تک رہنے والی شریعت تھی اس لیے اس کی حفاظت کا منجانب اللہ خاص اہتمام یہ کیاگیا کہ ذرائع معاصی تو حرام تھے ہی ان اسباب و ذرائع کو بھی حرام قرار دے دیا گیا جو عادت غالبہ کے طور پران جرائم تک پہنچادینے والے ہیں ، مثلاً شراب نوشی کو حرام کیا گیا، تو شراب کے بنانے بیچنے خریدنے اور کسی کو دینے کوبھی حرام قرار دے دیا گیا، سود کو حرام کرنا تھا توسود سے ملتے جلتے معاملات کو بھی ناجائز کردیا گیا اسی لیے حضرات فقہاء نے تمام معاملات فاسدہ سے