دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
ومثلہ فی ردالمحتار وجامع الفصولین من باب کلمات الکفر۔ اور امر دوم کے متعلق بھی صحابہ کرام اور سلف صالحین کے تعامل نے یہ بات متعین کردی کہ اس میں تہاون و تکاسل کرنا اصول اسلام کو نقصان پہنچانا ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جو لوگ مرتد ہوئے تھے ان کا ارتداد قسم دوم ہی کا ارتداد تھا، صریح طور پر تبدیل مذہب (عموماً) نہ تھا لیکن صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے ان پر جہاد کرنے کو اتنا زیادہ اہم سمجھا کہ نزاکت وقت اور اپنے ضعف کا بھی خیال نہ فرمایا۔ اسی طرح مسیلمہ کذاب مدّعیٔ نبوت اور اس کے ماننے والوں پر جہاد کیا جس میں جمہور صحابہ شریک تھے، جن کے اجماع سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ جو شخص ختم نبوت کا انکار کرے یا نبوت کا دعویٰ کرے وہ مرتد ہے اگر چہ تمام ارکان اسلام کا پابند اور زاہد و عابد ہو۔ضابطۂ تکفیر اس لیے تکفیر مسلم کے بارے میں ضابطہ شرعیہ یہ ہوگیا کہ جب تک کسی شخص کے کام میں تاویل صحیح کی گنجائش ہو اور اس کے خلاف کی تصریح متکلم کے کلام میں نہ ہو یا اس عقیدہ کے کفر ہونے میں ادنیٰ سے ادنیٰ اختلاف ائمہ اجتہاد میں واقع ہو، اس وقت تک اس کے کہنے والے کو کافر نہ کہا جائے لیکن اگر کوئی شخص ضروریاتِ دین میں سے کسی چیز کا انکار کرے یا کوئی ایسی ہی تاویل و تحریف کرے جو اس کے اجماعی معانی کے خلاف معنی پیدا کردے تو اس شخص کے کفر میں کوئی تأمل نہ کیا جائے، واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم۔تنبیہ ضروری مسئلہ زیر بحث میں اس بات کا ہر وقت خیال رکھنا ضروری ہے کہ یہ مسئلہ نہایت نازک ہے۔ اس میں بے باکی اور جلد بازی سے کام لینا سخت خطرناک ہے مسئلہ کی