دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
ایمان بالرسالۃ کے بغیر نجات نہیں ’’قُلْ یَا اَہْلَ الْکِتَابِ لَسْتُمْ عَلٰی شَیْئٍ‘‘۔ (سورہ مائدہ: پ۶، آیت:۶۹) ظاہر ہے کہ اس آیت میں تمام ایمانیات اور عقائد اسلام کی تفصیلات بیان کرنا منظور نہیں نہ اس کا کوئی موقع ہے۔ اسلام کے چند بنیادی عقائد ذکر کرکے تمام اسلامی عقائد کی طرف اشارہ کرنا اور اس کی طرف دعوت دینا مقصود ہے اور نہ یہ کوئی ضروری بات ہے کہ ہر آیت میں جہاں ایمان کا ذکر آئے اس کی ساری تفصیلات وہیں ذکر کی جائیں اس لیے اس جگہ ایمان بالرسول یا ایمان بالنبوۃ کا ذکر صراحۃً نہ ہونے سے کسی ادنی فہم وعقل اور انصاف ودانش رکھنے والے کو کسی شبہ کی گنجائش نہ تھی، خصوصاً جب کہ پورا قرآن اوراس کی سینکڑوں آیتیں ایمان بالرسالت کی تصریحات سے لبریز ہیں ، جن میں یہ تصریحات موجود ہیں کہ رسول اور ارشادات رسول پر مکمل ایمان لائے بغیر نجات نہیں ، اور کوئی ایمان وعمل بغیر اس کے مقبول ومعتبر نہیں ، لیکن ملحدین کا ایک گروہ جو کسی نہ کسی طرح قرآن میں اپنے مکروہ نظریات کو ٹھونسنا چاہتا ہے اور انہوں نے اس آیت میں صراحۃً ذکر رسالت نہ ہونے سے ایک نیا نظریہ قائم کرلیا جو قرآن و سنت کی بے شمار تصریحات کے قطعاً خلاف ہے، وہ یہ کہ ہر شخص اپنے اپنے مذہب یہودی، نصرانی یہاں تک کہ ہندو بت پرست رہتے ہوئے بھی اگر صرف اللہ پراور روزِ قیامت پر ایمان رکھتا ہو اور نیک کام کرے تو نجات آخرت کا مستحق ہوسکتا ہے، نجاتِ اخروی کے لیے اسلام میں داخل ہونا ضروری نہیں ۔ (نعوذ باللہ منہ) جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے تلاوتِ قرآن کی توفیق اور اس پر صحیح ایمان عطا فرمایا ہے، ان کے لیے قرآنی تصریحات سے اس مغالطہ کا دور کردینا کسی بڑے علم و نظر کا محتاج نہیں ، قرآن کریم کا اردو ترجمہ جاننے والے حضرات بھی اس تخیل کی غلطی کو بآسانی سمجھ