دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
اور ایمان نہ لانے کا بیہودہ بہانے کے سوا کچھ نہیں سمجھ سکتا، ایسے سوالات کے جوابات میں انسان کو فطرتاً غصہ آتا ہے اور جواب بھی اسی انداز سے دیتا ہے مگر ان آیات میں ان کے بیہودہ سوالات کا جو جواب حق تعالیٰ نے اپنے رسول کو تلقین فرمایا وہ قابل نظر اور مصلحین امت کے لیے ہمیشہ یاد رکھنے اور لائحہ عمل بنانے کی چیز ہے کہ ان سب کے جواب میں نہ ان کی بیوقوفی کا اظہار کیا گیا نہ ان کی معاندانہ شرارت کا، نہ ان پر کوئی فقرہ کسا گیا بلکہ نہایت سادہ الفاظ میں اصل حقیقت کو واضح کردیا گیا کہ تم لوگ شاید یہ سمجھتے ہو کہ جو شخص خدا کا رسول ہوکر آئے وہ سارے خدا کے اختیارات کا مالک اور ہر چیز پر قادر ہو یہ تخیل غلط ہے، رسول کا کام صرف اللہ کا پیغام پہنچانا ہے۔ (معارف القرآن سورۂ کہف ۵؍ ۵۲۰، بنی اسرائیل)تنقید کرنے کا مؤثر طریقہ قَالُوْا حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَیْہِ آبَائَ َنا الخ۔ قرآن نے اس جگہ تقلید آبائی کے خوگر لوگوں کی غلطی کو واضح فرمایا اور اس کے ساتھ ہی کسی دوسرے پر تنقید اور اس کی غلطی ظاہرکرنے کا ایک خاص مؤثر طریقہ بھی بتلادیا جس سے مخاطب کی دل آزاری یا اس کو اشتعال نہ ہو، کیونکہ دین آبائی کی تقلید کرنے والوں کے جواب میں یوں نہیں فرمایا کہ تمہارے باپ دادا جاہل یا گمراہ ہیں بلکہ ایک سوالیہ عنوان بنا کر ارشاد فرمایا کہ کیا تمہارے باپ دادا کی پیروی اس حالت میں بھی کوئی معقول بات ہوسکتی ہے جب کہ باپ دادا نہ علم رکھتے ہوں نہ عمل۔ (معارف القرآن سورہ توبہ ۴؍ ۳۲۵)