دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
مقلدین ان سے اس کی توقع رکھیں کہ ان کی طرف سے بھی وہی توجیہ قبول کرلی جائے۔ایک مسئلہ فقہیہ اسی کی نظیر ایک مسئلہ فقہیہ بھی ہے کہ سبع قرأت جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بتواتر منقول ہیں ، ساتوں قرأتوں میں قرآن کا پڑھنا ہمیشہ معمول رہا ہے لیکن شارح منیہ علامہ حلبیؒ نے تحریر فرمایا ہے کہ یہ زمانہ جہل و نادانی کا ہے اس لیے بہتر یہ ہے کہ بجز اس قرأت کے جو اپنے ملک میں رائج ہو دوسری قرأت نہ پڑھی جائے، تاکہ عوام اس مغالطہ میں نہ پڑ جائیں کہ قرآن کے الفاظ میں اختلافات ہیں ۔ (جواہر الفقہ ۲؍۲۷)تقلید شخصی کب سے شروع ہوئی اور کیوں ہوئی؟ قرون مشہود لہا بالخیر یعنی زمانۂ صحابہ و تابعین میں جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا ہے جو شخص کسی مسئلہ سے واقف نہ ہوتا تھا وہ کسی عالم سے مسئلہ پوچھ کر اس کی تقلید کرکے عمل کرتا تھا اور اس میں تقلید شخصی اور غیر شخصی دونوں کے نظائر اس عہد مبارک میں ملتے ہیں ، تقلید غیر شخصی کا چونکہ حضرات اہل حدیث بھی اقرار کرتے ہیں اس لیے ان کے نظائر جمع کرنے کی ضرورت نہیں صرف وہ چند واقعات لکھے جاتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ زمانۂ صحابہ و تابعین میں بھی بعض لوگ تقلید شخصی کے پابند تھے، اور کسی ایک ہی عالم کو اپنا مقتداء بنایا ہوا تھا۔ تمام مواضع خلاف میں ان کے مذہب کوراجح سمجھ کر اسی پر عمل کرتے ہیں ۔ محدث الہند حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ ’’حجۃ اﷲ البالغہ‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں : اختلف فی کثیر من الاحکام واتبعہ فی ذلک أصحابہ من أہل مکۃ۔ محل خلاف میں ابن عباسؓ کے قول کو ترجیح دینا اور ان کے فتویٰ پر عمل کرنا یہی