دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
فصل مشاجرات صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین ’’وَاِنْ طَآئِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَہُمَا‘‘ (الآیۃ) (سورۂ حجرات پ۲۶) امام ابو بکر ابن العربیؒ نے فرمایا کہ یہ آیت قتال بین المسلمین کی تمام صورتوں کو حاوی اور شامل ہے، اس میں وہ صورت بھی داخل ہے جس میں دونوں فریق کسی حجت شرعی کے تحت جنگ کے لیے آمادہ ہوجاتے ہیں ، صحابۂ کرام کے مشاجرات اسی قسم میں داخل ہیں ۔ قرطبی نے ابن عربی کا یہ قول نقل کرکے اس جگہ مشاجرات صحابہ کے بارے میں بعد میں آنے والے مسلمانوں کے عمل کے متعلق ہدایات دی ہیں ، اس کا خلاصہ یہ ہے: ’’یہ جائز نہیں کہ کسی بھی صحابی کی طرف قطعی اور یقینی طور پر غلطی منسوب کی جائے اس لیے کہ ان سب حضرات نے اپنے اپنے طرز عمل میں اجتہاد سے کام لیا تھااور سب کا مقصد اللہ تعالیٰ کی خوشنودی تھی، یہ سب حضرات ہمارے پیشوا ہیں ، اور ہمیں حکم ہے کہ ان کے باہمی اختلافات سے کف لسان کریں اور ہمیشہ ان کا ذکر بہترین طریقہ پر کریں ، کیونکہ صحابیت بڑی حرمت کی چیز ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بُرا کہنے سے منع فرمایا ہے، اور یہ خبر دی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف کررکھا ہے اور ان سے راضی ہے‘‘۔ (۲) اس کے علاوہ متعدد سندوں سے یہ بات ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ