دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
اصل اشیاء میں اباحت ہے یا حرمت؟ ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَ لَکُمْ مَا فِیْ الْاَرْضِ جَمِیْعًا۔ (پ۱، سورۂ بقرہ) اس آیت سے بعض علماء نے اس پر استدلال کیا ہے کہ دنیا کی تمام چیزوں میں اصل یہ ہے کہ وہ انسان کے لیے حلال و مباح ہوں کیونکہ وہ اس کے لیے پیدا کی گئی ہے بجز ان چیزوں کے جن کو شریعت نے حرام قرار دیا اس لیے جب تک کسی چیز کی حرمت قرآن و سنت سے ثابت نہ ہو، اس کو حلال سمجھا جائے گا۔ اس کے بالمقابل بعض علماء نے یہ قرار دیا کہ انسان کے فائدے کے لیے کسی چیز کے پیدا ہونے سے اس کا حلال ہونا ثابت نہیں ہوتا اس لیے اصل اشیاء میں حرمت ہے جب تک قرآن و سنت کی کسی دلیل سے جواز ثابت نہ ہو ہر چیز حرام سمجھی جائے گی۔ بعض حضرات نے توقف فرمایا۔ تفسیر بحر محیط میں ابن حیان نے فرمایا کہ صحیح یہ ہے کہ اس آیت میں اقوال مذکورہ میں کسی کے لیے حجت نہیں کیونکہ خَلَقَ لَکُمْ میں حرف لام سببیت بتلانے کے لیے آیا ہے کہ تمہارے سبب سے یہ چیزیں پیدا ہوگئی ہیں اس سے نہ انسان کے لیے ان چیزوں کے حلال ہونے پر کوئی دلیل قائم ہوسکتی ہے نہ حرام ہونے پر بلکہ حلال و حرام کے احکام جدا گانہ قرآن وسنت میں بیان ہوئے ہیں ، انہیں کا اتباع لازم ہے۔ (معارف القرآن ۱؍۱۷۴)محقق قول کُلُوْا وَاشْرَبُوْا۔(پ۸، سورۂ اعراف) ایک مسئلہ اس آیت سے احکام القرآن جصاص کی تصریح کے مطابق یہ نکلا کہ دنیا میں جتنی چیزیں کھانے پینے کی ہیں اصل ان میں یہ ہے کہ وہ سب جائز و حلال ہیں ،