دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
باب (۱۰) افتاء و استفتاء کا بیان شعبۂ افتاء اورفتوی نویسی کی اہمیت وافادیت ایک روز آپ نے (یعنی حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے) فتوی کے ساتھ اس قدر شغف اور انہماک کا سبب خود بیان فرمایا جس سے اس طرز عمل کی حقیقت واضح ہوتی ہے۔ فرمایا: دینی خدمت کے جتنے شعبے ہیں ، ان میں سے فتوی وہ شعبہ ہے جس کا فائدہ نقد ظاہر ہوجاتا ہے، انسان تصنیف کرتا ہے تو اسے معلوم نہیں ہوتا کہ اسے کتنے لوگ پڑھیں گے؟ اسی طرح وعظ تقریر کرنے والے کو یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ اس کے بیان سے کوئی متأثر ہوکر اس کی بتائی ہوئی بات پر عمل کرے گا یا نہیں ؟ یہی حال تدریس کا ہے کہ طلبہ میں سے کتنے اس سے حقیقی فائدہ اٹھائیں گے، یہ معلوم نہیں ہوتا اس کے برخلاف مفتی کے پاس عموماً وہی شخص سوال بھیجتا ہے جسے دین کی طلب ہوتی ہے اورجو مفتی کے فتوی کے مطابق عمل کرنا چاہتا ہے۔ اور عام طور سے اس پر عمل کر بھی لیتا ہے اس لئے اس کا فائدہ اگرچہ بظاہر محدود ہے لیکن نقد اور متعین ہے، اس کے علاوہ اس خدمت میں شہرت طلبی وغیرہ کے مکائدِ نفس