دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
کر اپنے آپ کو مسلمان کہا تو اس وقت تمہیں مسلمان قرار دینے کے لیے شریعت نے یہ قید نہیں لگائی تھی کہ تمہارے دلوں کو ٹٹولیں ، اور دل میں اسلام کا ثبوت ملے، تب تمہیں مسلمان قرار دیں ، بلکہ صرف کلمۂ اسلام پڑھ لینے کو تمہارے مسلمان قرار دینے کے لیے کافی سمجھا گیا تھا، اسی طرح اب جو تمہارے سامنے کلمہ پڑھتا ہے اس کو بھی مسلمان سمجھو۔اہل قبلہ کو کافرنہ کہنے کا مطلب اس آیت کریمہ سے یہ اہم مسئلہ معلوم ہوا کہ جو شخص اپنے آپ کو مسلمان بتلاتا ہو خواہ کلمہ پڑھ کر یا کسی اور اسلامی شعار کا اظہار کرکے مثلاً اذان، نماز وغیرہ میں شرکت کرے تو مسلمانوں پر لازم ہے کہ اس کو مسلمان سمجھیں اور اس کے ساتھ مسلمانوں کا سا معاملہ کریں ، اس کا انتظار نہ کریں کہ وہ دل سے مسلمان ہوا ہے، یا کسی مصلحت سے اسلام کا اظہار کیا ہے۔ نیز اس معاملہ میں اس کے اعمال پر بھی مدار نہ ہوگا، فرض کرلو کہ وہ نماز نہیں پڑھتا، روزہ نہیں رکھتا، اور ہر قسم کے گناہوں میں ملوث ہے، پھر بھی اس کو اسلام سے خارج کہنے کا یا اس کے ساتھ کافروں کا معاملہ کرنے کا کسی کو حق نہیں ، اسی لیے امام اعظمؒ نے فرمایا لانکفّر اہل القبلۃ بذَنب (یعنی ہم اہل قبلہ کو کسی گناہ کی وجہ سے کافرنہیں کہتے) بعض روایاتِ حدیث میں بھی اس قسم کے الفاظ مذکور ہیں کہ اہل قبلہ کو کافرنہ کہو خواہ وہ کتنا ہی گنہگار بد عمل ہو۔ مگر یہاں ایک بات خاص طور پر سمجھنے اور یاد رکھنے کی ہے کہ قرآن و حدیث سے یہ ثابت ہے کہ جو شخص اپنے آپ کو مسلمان کہے اس کو کافر کہنا یا سمجھنا جائز نہیں ، اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ جب تک اس سے کسی ایسے قول و فعل کا صدور نہ ہو جو کفر کی یقینی علامت ہے اس وقت تک اس کے اقرار اسلام کو صحیح قرار دے کر اس کو مسلمان کہا جائے