دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
جب تک کسی خاص چیز کی حرمت و ممانعت کسی دلیل شرعی سے ثابت نہ ہوجائے ہر چیز کو جائز وحلال سمجھا جائے گا۔ اس کی طرف اشارہ اس بات سے ہوا کہ کُلُوْا وَاشْرَبُوْا کا مفعول ذکر نہیں فرمایا کہ کیا چیز کھاؤ، پیو، اور علماء عربیت کی تصریح ہے کہ ایسے موقع پر مفعول کا ذکر نہ کرنا اس کے عموم کی طرف اشارہ ہوا کرتا ہے کہ ہر چیز کھاپی سکتے ہو بجز ان اشیاء کے جس کو بالتصریح حرام کردیا گیا ہے۔ (احکام القرآن جصاص، معارف القرآن ۳؍۵۴۵)حیلہ کا بیان جائز اور ناجائز حیلہ اس آیت میں یہودیوں کے جس اعتداء یعنی حدود سے تجاوز کا ذکر کرکے اس کو سبب عذاب بتلایا گیا ہے ، روایات سے ثابت ہے کہ وہ صاف طور پر حکم شرعی کی خلاف ورزی نہ تھی بلکہ ایسے حیلے تھے جن سے حکم شرعی کا ابطال لازم آتا تھا، مثلاً ہفتہ کے دن مچھلی کی دم میں ایک ڈور کا پھندا لگا کر دریا میں چھوڑ دیا، اور یہ ڈور زمین پر کسی چیز سے باندھ دی پھر اتوارکے دن اس کو پکڑ کر کھالیا تووہ ایک ایسا حیلہ ہے جس میں حکم شرعی کا ابطال بلکہ ایک قسم کا استہزاء ہے۔ اس لیے ایسا حیلہ کرنے والوں کو بڑا سرکش نافرمان قرار دے کرا ن پر عذاب آیا مگر اس سے ان فقہی حیلوں کی حرمت ثابت نہیں ہوتی جن میں سے بعض خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلائے ہیں ، مثلاً ایک سیر عمدہ کھجور کے بدلے میں دوسیر خراب کھجور خریدنا سود میں داخل ہے مگر اس سے بچنے کا ایک حیلہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلایا کہ جنس کا تبادلہ جنس سے نہ کرو، دوسیر خراب کھجوریں دودرہم میں فروفت کردیں پھر ان دو درہموں میں سے ایک سیر عمدہ کھجور خرید لیں مثلاً زکوٰۃ سے بچنے کے لیے بعض لوگ یہ حیلہ کرتے ہیں کہ سال کے ختم ہونے سے ذرا پہلے اپنا مال بیوی کی ملکیت