دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
فیقعوا فی اشد منہ۔ یعنی بعض اوقات جائز بلکہ مستحسن چیزوں کو اس لیے چھوڑ دیا جاتا ہے کہ اس سے کم فہم عوام کو کسی غلط فہمی میں مبتلا ہوجانے کا خطرہ ہوتا ہے بشرطیکہ یہ کام مقاصد اسلامیہ میں داخل ہو، مگر جو کام مقاصد اسلامیہ میں داخل ہے خواہ فرائض وواجبات ہو یا سنن مؤکدہ یا دوسری قسم کے شعائر اسلامی اگر ان کے ادا کرنے سے کچھ کم فہم لوگ غلطی میں مبتلا ہونے لگیں ، تو ان کاموں کو ہرگز نہ چھوڑا جائے گا بلکہ دوسرے طریقوں سے لوگوں کی غلط فہمی اور غلط کاری کو دور کرنے کی کوشش کی جائے گی ابتداء اسلام کے واقعات شاہد ہیں کہ نماز وتلاوت وتبلیغ اسلام کی وجہ سے مشرکین مکہ کو اشتعال ہوتا تھا مگر اس کی وجہ سے ان شعائر اسلام کو کبھی ترک نہیں کیا گیا بلکہ خود آیت مذکور ہ کے شان نزول میں جو واقعہ ابو جہل وغیرہ رؤساء قریش کا ذکر کیا گیا ہے اس کا حاصل یہی تھا کہ قریشی سردار اس پر صلح کرنا چاہتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم توحید کی تبلیغ کرنا چھوڑ دیں جس کے جواب میں آپ نے فرمایا کہ میں یہ کام کسی حال میں نہیں کرسکتا اگر چہ وہ آفتاب و مہتاب لاکر میرے ہاتھ پر رکھ دیں ۔تنقیح اور خلاصہ اس لیے اس مسئلہ کی تنقیح اس طرح ہوگی کہ جو کام مقاصد اسلامیہ میں داخل ہیں اگر ان کے کرنے سے کچھ لوگ غلط فہمی یا غلط کاری کا شکار ہوتے ہیں تو ان کاموں کو ہرگز نہ چھوڑا جائے گا۔ ہاں جو کام مقاصد اسلامیہ میں داخل نہیں اور ان کے ترک کردینے سے کوئی دینی مقصد فوت نہیں ہوتا، ایسے کاموں کو دوسروں کی غلط فہمی یا غلط کاری کے اندیشہ کی وجہ سے چھوڑ دیا جائے گا۔ (معارف القرآن ص:۴۲۱ تا ۴۲۴، سوم ، سورہ انعام)