دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
الامتؒ سے استفادہ کرنے کا کوئی موقع فروگذاشت نہ فرماتے تھے۔ (ایضاً : ۱۷۱) حضرت والد صاحب حضرت حکیم الامت تھانویؒ کی یہ گرانقدر نصیحت باربار سنایا کرتے تھے کہ جب تک تمہارے ضابطہ کے بڑے موجود ہوں ان سے استصواب کئے (یعنی ان سے رائے و مشورہ لیے) بغیر کبھی کوئی اہم کام نہ کرو اور جب ضابطہ کے بڑے نہ رہیں تو اپنے معاصرین اور برابرکے لوگوں سے مشورہ کرو، چنانچہ ساری عمر والد صاحب کا عمل اسی کے مطابق رہا۔ یہ معمول دوسرے معاملات میں تو تھا ہی لیکن کسی نئے فقہی مسئلہ کی تحقیق کرنی ہو تو اس میں اس بات کا ہمیشہ لحاظ رکھتے تھے۔ چنانچہ فتاویٰ دارالعلوم اور جواہر الفقہ میں مختلف فقہی مسائل پر جو فقہی رسالے موجود ہیں ان میں سے اکثر ایسے ہیں کہ ان کے آخر میں اس زمانہ کے معروف اہل فتویٰ اور اہل علم کی تصدیقات ساتھ لگی ہوئی ہیں ۔ (البلاغ ص:۴۰۹)اختلاف کے باوجود ادب و احترام حضرت مفتی صاحب قدس سرہ کو اللہ جل شانہ نے بڑا وسیع القلب اور وسیع النظر بنایا تھا، آپ اپنی تحقیق کے ساتھ دوسرے اکابرین اور ہمعصر علماء کی تحقیق کو نقل کرنا اپنی سعادت سمجھتے اورا نہیں اسی طرح شائع بھی فرمادیا کرتے تھے۔ (تفصیلات کے لیے دیکھئے جواہر الفقہ)۔ نیز حضرت والا بعض علماء سے فقہی اختلاف کے باوجود ان کی کتب و فتاویٰ کے حوالے اپنے فتاوی کی تائید میں پیش فرمایا کرتے تھے۔ (البلاغ ص:۷۲۷) مولانا لکھنوی سے شدید اختلاف کے باوجود آپ اپنے فتاویٰ کی تائید میں ان کے اقوال اور ان کی تصانیف کی عبارتیں پیش فرماتے ہیں اور مولانا لکھنوی کے لیے فرماتے ہیں کہ: کذا قال مولانا المحقق عبدالحی لکھنوی فی مجموعۃ الفتاویٰ۔ (البلاغ ص:۷۳۱)