دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
مباح اور مندوب کے ناجائز ہونے کا قاعدہ اس بحث کو علامہ شاطبیؒ نے کتاب الاعتصام میں بہت مفصل لکھا ہے اورایک مستقل فصل اس پر منعقد کی ہے کہ بعض چیزیں اپنی ذات سے جائز بلکہ مندوب ہوتی ہیں لیکن آئندہ کو ان سے یہ خطرہ ہوتا ہے کہ باعث منکرات بن جائیں گی تو ان کو بھی ترک کرنا چاہئے۔ ولفظہ قد یکون العمل مشروعاً ولکنہ یصیر جاریا مجری البدعۃ من باب الذرائع ثم ساق لہ دلائل من الحدیث ما فیہ مقنع فلیراجع۔ (کتاب الاعتصام ۲؍۹۲) مثلاً لڑکی والے کی طرف سے دعوت کا اہتمام اگر خود منکرات پر مشتمل نہ ہو مگر دوسرے لوگوں کے لیے ذریعہ بننے کا اندیشہ ہو تب بھی ایسی دعوتوں کو ترک کرنا چاہئے۔ (فتاویٰ دارالعلوم قدیم ۷؍۲۰۰)جَلْبِ منفعت ودفع مضرت کا قاعدہ وَإِثْمُہُمَا اَکْبَرُ مِنْ نَفْعِہِمَا (بقرہ)یعنی شراب وقمار کے مفاسد ان کے نفع سے زیادہ ہیں ، اس آیت میں شراب اور قمار کے بعض فوائد کو تسلیم کرتے ہوئے ان سے رکنے کی ہدایت فرمائی گئی ہے، جس سے ایک اہم نتیجہ یہ نکل آیا کہ کسی چیز یا کسی کام میں کچھ دنیوی منافع ہونا اس کے منافی نہیں کہ اس کو شرعاً حرام قرار دیا جائے، کیونکہ جس طرح محسوسات میں اس دوا اور غذا کو مضر کہا جاتا ہے جس کی مضرتیں بہ نسبت اس کے فائدے کے زیادہ سخت ہوں ورنہ یوں تو دنیا کی کئی بری سے بری چیز بھی منافع سے خالی نہیں زہر قاتل میں سانپ اور بچھو میں درندوں میں کتنے فوائد ہیں لیکن مجموعی حیثیت سے ان کو مضر کہا جاتا ہے اور ان کے پاس جانے سے بچنے کی ہدایت کی جاتی ہے اسی طرح معنوی اعتبار سے جن کاموں کے مفاسد ان کے منافع سے زائد ہوں شرعاً ان کو حرام کردیا جاتا ہے۔