دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
چاہیں کسی ایک امام کا قول اختیار کرلیں ، اور جس میں چاہیں کسی دوسرے کا قول لے لیں ، تو اس کا لازمی اثر یہ ہونا تھا کہ لوگ اتباع شریعت کا نام لے کر اتباع ہویٰ میں مبتلا ہوجائیں کہ جس امام کے قول میں اپنی غرض نفسانی پوری ہوتی نظر آئے اس کو اختیار کرلیں اور یہ ظاہر ہے کہ ایسا کرنا کوئی دین و شریعت کا اتباع نہیں ہوگا، بلکہ اپنی اغراض و ہویٰ کا اتباع ہوگا، جو باجماع امت حرام ہے علامہ شاطبیؒ نے موافقات میں اس پر بڑی تفصیل سے کلام کیا ہے، اور ابن تیمیہؒ نے بھی عام تقلید کی مخالفت کے باوجود اس طرح کے اتباع کو اپنے فتاویٰ میں باجماع امت حرام کہا ہے، اس لیے متاخرین فقہاء نے یہ ضروری سمجھا کہ عمل کرنے والوں کو کسی ایک ہی امام مجتہد کی تقلید کا پابند کرنا چاہئے یہیں سے تقلید شخصی کا آغاز ہوا جو در حقیقت ایک انتظامی حکم ہے جس سے دین کا انتظام قائم رہے اور لوگ دین کی آڑ میں اتباع ہویٰ کے شکار نہ ہوجائیں ۔ (معارف القرآن ۵؍۳۳۵، نحل)تقلید شخصی ایک انتظامی ضرورت ہے حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم تحریر فرماتے ہیں : حضرت والد صاحبؒ اکابر دیوبند کے مسلک کے مطابق تقلید شخصی کے نہ صرف قائل تھے، بلکہ اس دور ہویٰ و ہوس میں اس کو سلامتی کا راستہ سمجھتے تھے، اور جب کبھی ائمہ اربعہ کے درمیان دلائل کے محاکمہ کا سوال آتا تو فرمایا کرتے تھے کہ یہ ہمارا منصب نہیں ہے، کیونکہ محاکمہ کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ جانبین کے علمی مقام سے اگر بلند تر نہ ہو تو کم از کم ان کے مساوی تو ہو اور آج اس مساوات کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا البتہ ساتھ ہی حضرت شیخ الہندؒ کا یہ مقولہ سنایا کرتے تھے کہ تقلید شخصی کوئی شرعی حکم نہیں ہے بلکہ ایک انتظامی فتویٰ ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ چاروں ائمہ مجتہدین برحق ہیں ، اور ہر ایک کے پاس اپنے موقف کے لیے وزنی دلائل موجود ہیں ، لیکن اگر ہر شخص کو یہ کھلی چھٹی