دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
قاعدہ مذکورہ کے شرائط اور اس کے حدود لیکن اس پرایک قوی اشکال ہے جس کو روح المعانی میں ابو منصور سے نقل کیا ہے وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پرجہاد وقتال لازم فرمایا ہے حالانکہ قتال کا یہ لازمی نتیجہ ہے کہ مسلمان کسی غیرمسلم کو قتل کرنے کا ارادہ کرے گا، تو وہ مسلمان کو قتل کریں گے، اور مسلمان کا قتل کرنا حرام ہے، تو اس اصول پر جہاد بھی ممنوع ہوجانا چاہئے ایسے ہی ہماری تبلیغ اسلام اور تلاوت قرآن پر نیز اذان اور نماز پر بہت سے کفار مذاق اڑاتے اور مضحکہ بناتے ہیں ، تو کیا ہم ان کی اس غلط رویہ کی بنا پر اپنی عبادت سے دستبردار ہوجائیں ؟ اس کا جواب خود ابو منصور نے یہ دیا ہے کہ یہ اشکال ایک ضروری شرط کے نظر انداز کردینے سے پیدا ہوگیا ہے، شرط یہ ہے کہ وہ جائز کام جس کو لزوم مفسدہ کی وجہ سے منع کردیا گیا ہے، اسلام کے مقاصد اور ضروری کاموں میں سے نہ ہوں جیسے معبودان باطلہ کو برا کہنا اس سے اسلام کا کوئی مقصد متعلق نہیں اسی طرح بیت اللہ کی تعمیر کو بناء ابراہیمی کے مطابق بنانا اس پر بھی کوئی اسلامی مقصد موقوف نہیں ، اس لیے جب اس پر کسی دینی مفسدہ کا خطرہ لاحق ہوا تو ان کاموں کو ترک کردیا گیا اور جو کام ایسے ہیں کہ اسلام میں خود مقصود ہیں ، یا کوئی مقصد اسلامی اس پر موقوف ہے اگر دوسرے لوگوں کی غلط روی سے ان پر کوئی مفسدہ اور خرابی مرتب بھی ہوتی نظر آئے تو ان مقاصد کو ہرگز ترک نہ کیا جائے، بلکہ اس کی کوشش کی جائے کہ یہ کام تو اپنی جگہ جاری رہے، اور پیش آنے والے مقاصد جہاں تک ممکن ہو بند ہوجائیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ایک مرتبہ حضرت حسن بصریؒ اور امام محمدبن سیرینؒ دونوں حضرات ایک جنازہ کی نماز میں شرکت کے لیے چلے، وہاں دیکھا کہ مردوں کے ساتھ عورتوں کا بھی اجتماع ہے اس کو دیکھ کر ابن سیرین واپس ہوگئے مگر حسن بصریؒ نے فرمایا کہ لوگوں کی غلط روش کی وجہ سے ہم اپنے