دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
پہلی صورت کا حکم پہلی صورت میں اگر اس چیز کا حلال ہونا قطعی دلائل سے ثابت ہو تو اس کا حرام سمجھنے والا قانون الٰہی کی صریح ممانعت کی وجہ سے کافر ہوجائے گا۔دوسری صورت کا حکم دوسری صورت میں اگر الفاظ قسم کھاکر اس چیز کو اپنے اوپر حرام قرار دیا ہے تو قسم ہوجائے گا۔ قسم کے الفاظ بہت ہیں ، جو کتب فقہ میں مفصل مذکور ہیں ، ان میں ایک مثال یہ ہے کہ صراحۃً کہے کہ اللہ کی قسم کھاتا ہوں کہ فلاں چیز نہ کھاؤں گا یا فلاں کام نہ کروں گا یا یہ کہے کہ میں فلاں چیز یا فلاں کام کو اپنے اوپر حرام کرتاہوں اس کا حکم یہ ہے کہ بلا ضرورت ایسی قسم کھانا گناہ ہے اس پر لازم ہے کہ اس قسم کو توڑدے اور کفارۂ قسم ادا کرے۔تیسری قسم کا حکم تیسری قسم جس میں اعتقاد اور قول سے کسی حلال کو حرام نہ کیا ہو بلکہ عمل میں ایسا معاملہ کرے جیسا حرام کے ساتھ کیا جاتا ہے کہ دائمی طور پر اس کے چھوڑنے کا التزام کرے اس کا حکم یہ ہے کہ اگر حلال کو چھوڑنا ثواب سمجھتا ہے تو یہ بدعت اور رہبا نیت ہے جس کا گناہ عظیم ہونا قرآن و سنت میں منصوص ہے اس کے خلاف کرنا واجب اور ایسی پابندی پر قائم رہنا گناہ ہے ہاں اگر ایسی پابندی بہ نیت ثواب نہ ہو بلکہ کسی دوسری وجہ سے ہو مثلاً کسی جسمانی یا روحانی بیماری کے سبب سے کسی خاص چیز کو دائمی طور پر چھوڑ دے تو اس میں کوئی گناہ نہیں بعض صوفیائے کرام اور بزرگوں سے حلال چیزوں کے چھوڑنے کی جو روایات منقول ہیں وہ سب اسی قسم میں داخل ہیں انہوں نے اپنے نفس