دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
ہے، تو وہ فکر میں پڑجاتا ہے کہ کون سا پہلو اختیار کرے، دونوں صورتوں میں نفع و نقصان کا احتمال رہتا ہے تو اس کا بہترین عمل شریعت نے یہ نکالا کہ تم اہل استنباط کی طرف رجوع کرو وہ جو بات بتلائیں اس پر عمل کرو۔ (احکام القرآن للجصاص مختصراً، معارف القرآن ۲؍۴۹۴، نساء)حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی قیاس واستدلال کے مکلف تھے ’’لَعَلِمَہُ الَّذِیْنَ یَسْتَنْبِطُوْنَہُ مِنْہُم ‘‘۔ (سورۂ نساء، پ۵) اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی دلائل کے ذریعہ احکام کے استنباط کے مکلف تھے، اس لیے کہ پہلی آیت میں دو آدمیوں کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا گیا۔ ایک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اور دوسرے اولوالامر کی طرف اس کے بعد فرمایا ’’لَعَلِمَہُ الَّذِیْنَ یَسْتَنْبِطُوْنَہُ‘‘ اور یہ حکم عام ہے جس میں مذکورہ فریقین میں سے کسی کی تخصیص نہیں ہے، لہٰذا اس سے ثابت ہوا کہ آپ کی ذات بھی استنباط احکام کی مکلف تھی۔ (احکام القرآن للجصاص، معارف القرآن ۲؍۴۹۳، نساء) ’’اِنَّا اَنْزَلْنَا اِلَیْکَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ‘‘۔ (سورۂ نساء، پ۵) اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے مسائل میں جن میں قرآن کریم کی کوئی نص صریح وارد نہ ہو اپنی رائے سے اجتہاد کرنے کا حق حاصل تھا اور مہمات کے فیصلوں میں آپ بہت سے فیصلے اپنے اجتہاد سے بھی فرماتے تھے۔ (معارف القرآن ۲؍۵۴۲، نساء)