دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
تھا، لیکن کوئی کسی کو اس اختلاف کی وجہ سے گہنگار نہ سمجھتا تھا۔ (معارف القرآن ۳؍۲۵۲ ، مائدہ پ۵)اجتہادی مسائل میں اختلاف کے حدود اہل علم کی سخت غلطی اور اس کا نقصان خلاصہ یہ ہے کہ اجتہادی اختلاف کے موقع پر یہ تو ہر ذی علم کو اختیار ہے کہ جس جانب کو راجح سمجھے اسے اختیار کرے لیکن دوسرے کے فعل کو منکر سمجھ کر اس پر انکار کرنے کا کسی کو حق نہیں ہے اس سے واضح ہوا کہ اجتہادی مسائل میں جنگ و جدل یا منافرت پھیلانے والے مقالات ومضامین امر بالمعروف یا نہی عن المنکر میں داخل نہیں ان مسائل کو محاذ جنگ بنانا صرف ناواقفیت یا جہالت (اور ضد وتعصب) ہی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ (معارف القرآن ۳؍۲۵۳، مائدہ) یہ وہ بات ہے جس میں آج کل بہت سے اہل علم بھی غفلت میں مبتلا ہیں ، اپنے مخالف نظریہ رکھنے والوں پر تبرا اورسب وشتم سے بھی پرہیز نہیں کرتے جس کا نتیجہ مسلمانوں میں جنگ وجدل اور انتشار واختلاف کی صورت میں جگہ جگہ مشاہدہ میں آرہا ہے، اجتہادی اختلاف بشرطیکہ اصول اجتہاد کے مطابق ہو، وہ تو ہرگز آیت مذکور ’’ولاتفرّقوا‘‘ کے خلاف اور مذموم نہیں ۔ البتہ اس اجتہادی اختلاف کے ساتھ جو معاملہ آج کل کیا جارہا ہے کہ اسی کے بحث و مباحثہ کو دین کی بنیاد بنائی گئی اور اس پر باہمی جنگ وجدل اور سب و شتم تک نوبت پہنچا دی گئی یہ طرز عمل بلا شبہ ’’ولاتفرّقوا‘‘ کی کھلی مخالفت اورمذموم اورسنت سلف صحابہ و تابعین کے بالکل خلاف ہے، اسلاف امت میں کبھی کہیں نہیں سنا گیا کہ اجتہادی اختلاف کی بنا پر اپنے سے مختلف نظریہ رکھنے والوں پر اس طرح نکیر کیا گیا ہو، مثلاً امام شافعی اور دوسرے ائمہ کا مسلک یہ ہے کہ جو نماز جماعت کے ساتھ