دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
فصل بدعت کی تعریف اور اس کی حقیقت اصل لغت میں بدعت ہر نئی چیز کو کہتے ہیں خواہ عبادات سے متعلق ہو یا عادات سے، اور اصطلاح شرع میں ہر ایسے نو ایجاد طریقۂ عبادت کو بدعت کہتے ہیں ، جو زیادہ ثواب حاصل کرنے کی نیت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدین کے بعد اختیار کیا گیا ہو، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے عہد مبارک میں اس کا داعیہ اور سبب موجود ہونے کے باوجود نہ قولاً ثابت ہو نہ فعلاً نہ صراحۃً نہ اشارۃً، بدعت کی یہ تعریف علامہ برکوئی کی کتاب الطریقۃ المحمدیۃ، اور علامہ شاطبی کی کتاب ’’الاعتصام‘‘ سے لی گئی ہے۔ اس تعریف سے معلوم ہوا کہ عادات اور دنیوی ضروریات کے لیے جو نئے نئے آلات اور طریقے روز مرہ ایجاد ہوتے رہتے ہیں ان کا شرعی بدعت سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ وہ بطور عبادت اور بہ نیت ثواب نہیں کئے جاتے یہ سب جائز اور مباح ہیں ، بشرطیکہ وہ کسی شرعی حکم کے مخالف نہ ہوں ۔ نیز یہ بھی معلوم ہوگیا کہ جو عبادت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام سے قولاً ثابت ہو یا فعلاً صراحۃً یا اشارۃً وہ بھی بدعت نہیں ہوسکتی۔ نیز یہ بھی معلوم ہوگیا کہ جس کام کی ضرورت عہد رسالت میں موجود نہ تھی بعد میں کسی دینی مقصد کو حاصل کرنے کے لیے پیدا ہوگئی، وہ بھی بدعت میں داخل نہیں ۔ جیسے مروجہ مدارس اسلامیہ اور تعلیمی تبلیغی انجمنیں اور دینی نشر و اشاعت کے ادارے اور قرآن و حدیث سمجھنے کے لیے صرف و نحو اور ادب عربی اور فصاحت وبلاغت کے فنون یا مخالف