دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
تقلید غیر شخصی میں اتنے بڑے بڑے مفاسد پیدا ہوگئے اور آئندہ ان سے بڑے مفاسد کا اندیشہ ہے اس لیے اس وقت مصلحت شرعی کا تقاضا یہ ہے کہ تقلید غیر شخصی سے لوگوں کو روکا جائے اور سب کو تقلید شخصی پر جمع کردیا جائے۔ اس پر اجماع منعقد ہوگیا، چنانچہ محدث الہند حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی قدس سرہ جن کی جلالتِ قدر اورعلم حدیث کا اعتراف محققین اہل حدیث مثل نواب صدیق حسن خاں صاحب مرحوم کوبھی ہے اپنے رسالہ الانصاف ص:۵۹ میں فرماتے ہیں : وبعد المأتین ظہر فیہم المذہب بالمجتہدین بأعیانہم دوسری صدی کے بعد لوگوں میں خاص خاص ائمہ کے مذہب کی پابندی یعنی وکان ہذا ہو الواجب فی ذٰلک الزمان۔ تقلید شخصی شروع ہوئی اور اس زمانہ میں یہی واجب تھی۔ چونکہ مطلق تقلید کے دو فرد میں سے تقلید غیر شخصی مضر ثابت ہوئی اس لیے اب فرض تقلید کا ادا کرنا صرف تقلید شخصی میں منحصر ہوگیا اور بوجہ ذریعہ اداء فرض (بہ ثبوت ظنی) ہونے کے واجب ہوگئی۔ (جواہر الفقہ ۲؍۲۴)تقلید شخصی کے وجوب کی ایک واضح مثال خلافت راشدہ کے عہد میں اہل علم پر مخفی نہیں کہ عرب کے قبائل کی زبانیں عربی ہونے میں مشترک ہونے کے باوجود مختلف تھیں ، جیسے ہندوستان میں پورب پچھم اور دلی لکھنؤ کی زبانیں مختلف سمجھی جاتی ہیں ، اسی لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی کہ قرآن مجید کو ان ساتوں لغت پر نازل کیا جاوے تاکہ کسی قبیلہ کو شکایت یا پڑھنے میں کلفت نہ ہو۔ آنحضرت صلی