دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
لیے تیجہ چہلم وغیرہ کی پابندی، رجب و شعبان وغیرہ کی متبرک راتوں میں خود ایجاد قسم کی نمازیں اور ان کے لیے چراغاں وغیرہ اور پھر ان خود ایجاد چیزوں کو فرض وواجب کی طرح سمجھنا ان میں شریک نہ ہونے والوں پر ملامت اور لعن طعن کرنا وغیرہ۔ ظاہر ہے کہ درود وسلام، صدقہ وخیرات، اموات کو ایصال ثواب متبرک راتوں میں نماز وعبادت ، نمازوں کے بعد دعا، یہ سب چیزیں عبادات ہیں ، ان کی ضرورت جیسے آج ہے ایسے ہی عہد صحابہ میں بھی تھی، ان کے ذریعہ ثواب آخرت اوررضائے الٰہی حاصل کرنے کا ذوق و شوق جیسے آج کسی نیک بندے کو ہوسکتا ہے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام کو ان سب سے زائد تھا، کون دعویٰ کرسکتا ہے کہ اس کو صحابہ کرام سے زائد ذوق عبادت اور شوق رضاء الٰہی حاصل ہے، حضرت حذیفہ بن یمانؓ فرماتے ہیں کہ کل عبادۃ لم یتعبّدہا أصحاب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم فلا تعبدوہا فان الاول لم یدع للآخر مقالا فاتقوا اﷲ یا معشر المسلمین وخذوا بطریق من کان قبلکم۔ یعنی جو عبادت صحابہ کرام نے نہیں کی وہ عبادت نہ کرو، کیونکہ پہلے لوگوں نے پچھلوں کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑی جس کویہ پورا کریں اے مسلمانو! خدا تعالیٰ سے ڈرو اور پہلے لوگوں کے طریقے کو اختیار کرو، اور اسی مضمون کی روایت حضرت عبد اللہ بن مسعود سے بھی منقول ہے۔ (الاعتصام للشاطبی ۱؍۳۱۰، جواہر الفقہ ۱؍۴۵۸)بدعت حسنہ اور سیئہ کی حقیقت صحیح حدیث میں ہے کل بدعۃ ضلالۃ وکل ضلالۃ فی النار۔ یعنی ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اصطلاح شرع میں ہر بدعت سیّئہ اور گمراہی ہے، کسی بدعت اصطلاحی کوبدعت حسنہ نہیں کہا جاسکتا، البتہ لغوی معنی میں ہر نئی چیز کو بدعت کہتے