دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
تو انہوں نے فرمایا کہ ’’ایسی لڑائی تھی جس میں صحابہ موجود تھے اور ہم غائب، وہ پورے حالات کو جانتے تھے اور ہم نہیں جانتے، جس معاملہ پر تمام صحابہ کاا تفاق ہے ہم اس میں ان کی پیروی کرتے ہیں اور جس معاملہ میں ان کے درمیان اختلاف ہے اس میں سکوت اختیار کرتے ہیں ۔ حضرت محاسبی فرماتے ہیں کہ ہم بھی وہی بات کہتے ہیں جوحضرت حسن بصری نے فرمائی ہے، ہم جانتے ہیں کہ صحابہ کرام نے جن چیزوں میں دخل دیا ان سے وہ ہم سے کہیں بہتر طریقے پر واقف تھے، لہٰذا ہمارا کام یہی ہے کہ جس پر وہ سب حضرات متفق ہوں اس کی پیروی کریں اور جس میں ان کا اختلاف ہو اس میں خاموشی اختیار کریں ۔ اور اپنی طرف سے کوئی نئی رائے پیدا نہ کریں ، ہمیں یقین ہے کہ ان سب نے اجتہاد سے کام لیا تھا اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی چاہی تھی، اس لیے کہ دین کے معاملہ میں وہ سب حضرات شک و شبہ سے بالاتر ہیں ۔ (معارف القرآن :۸؍۱۱۴)صحابہ کو برا بھلاکہنا جائز نہیں (۹) حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایاکہ اللہ تعالیٰ نے سب مسلمانوں کو اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے استغفار اور دعا کرنے کا حکم دیا، حالانکہ اللہ تعالیٰ کے علم میں تھا کہ ان کے آپس میں جنگ و جدال کے فتنے بھی پیدا ہوں گے (اس لیے کسی مسلمان کو مشاجرات صحابہ کی وجہ سے ان میں سے کسی سے بدگمان ہونا جائز نہیں )۔ (۱۰) حضرت عائشہ صدیقہؓ نے فرمایا کہ میں نے تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ یہ امت اس وقت تک ہلاک نہیں ہوگی جب تک کہ اس کے پچھلے لوگ اگلوں پر لعنت وملامت نہ کریں گے۔