دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
تنبیہ کسی مسلمان کو کافر کہنے کے معاملہ میں آج کل ایک عجیب افراط و تفریط رونما ہے ایک جماعت ہے کہ جس نے مشغلہ یہی اختیار کرلیا ہے کہ ادنی معاملات میں مسلمانوں پر تکفیر کا حکم لگادیتے ہیں ، اور جہاں ذرا سی کوئی خلاف شرع حرکت کسی سے دیکھتے ہیں تو اسلام سے خارج کہنے لگتے ہیں ۔ اور دوسری طرف نو تعلیم یافتہ آزاد خیال جماعت ہے جس کے نزدیک کوئی قول و فعل خواہ کتنا ہی شدید اور عقائد اسلامیہ کا صریح مقابل ہو کفر کہلانے کا مستحق نہیں ، وہ ہر مدعی اسلام کو مسلمان کہنا فرض سمجھتے ہیں اگر چہ اس کا کوئی عقیدہ اور عمل اسلام کے موافق نہ ہو اور ضروریات دین کا انکار کرتا ہو، اور جس طرح کسی مسلمان کو کافر کہنا ایک سخت پُر خطر معاملہ ہے اسی طرح کا فر کو مسلمان کہنا بھی اس سے کم نہیں کیونکہ حدودِ کفر واسلام میں التباس بہر دو صورت لازم آتا ہے اس لیے علماء امت نے ہمیشہ ان دونوں معاملوں میں نہایت احتیاط سے کام لیا ہے، امر اول کے متعلق تو یہاں تک تصریحات ہیں کہ اگر کسی شخص سے کوئی کام خلاف شرع صادر ہو جائے اور اس کلام کی مراد میں محاورات کے اعتبار سے چند احتمال ہوں اور سب احتمالات میں یہ کلام ایک کلمۂ کفر بنتا ہو لیکن صرف ایک احتمال ضعیف ایسا بھی ہو کہ اگر اس کلام کو اس پر حمل کیا جائے تو معنی کفر نہیں رہتے بلکہ عقائد حقہ کے مطابق ہو جاتے ہیں تو مفتی پر واجب ہے کہ اسی احتمال ضعیف کو اختیار کرکے اس کے مسلمان ہونے کا فتویٰ دے جب تک کہ خود وہ متکلم اس کی تصریح نہ کرے کہ میری مراد یہ معنی نہیں ۔ اسی طرح اگر کوئی مسلمان کسی ایسے عقیدہ کا قائل ہوجائے جو ائمہ اسلام میں سے اکثر لوگوں کے نزدیک کفر ہو لیکن بعض ائمہ اس کے کفر ہونے کے قائل نہ ہوں تو اس کفر مختلف فیہ سے بھی مسلمان پر کفر کا حکم کرنا جائز نہیں (صرح بہ فی البحر الرائق باب المرتدین جلد۵)