دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
مواقع میں بذنب کا لفظ بوجہ معروف و مشہور ہونے کے چھوڑدیا گیا۔ اور مسئلہ کا عنوان عدم تکفیر اہل القبلہ ہوگیا۔ حدیث و فقہ سے ناآشنا اور غرض متکلم سے ناواقف لوگ یہاں سے یہ سمجھ بیٹھے کہ جو شخص قبلہ کی طرف منھ کرکے نماز پڑھ لے اس کو کافر کہنا جائز نہیں ، خواہ کتنے ہی عقائد کفریہ رکھتا ہو، اور اقوال کفریہ بکتا پھرے۔ اور یہ بھی خیال نہ کیا کہ اگر یہی لفظ پرستی ہے تو اہل قبلہ کے لفظوں سے تویہ بھی نہیں نکلتا کہ قبلہ کی طرف منھ کرکے نماز پڑھے بلکہ ان لفظوں کا مفہوم تو اس سے زائد نہیں کہ صرف قبلہ کی طرف منھ کرلے خواہ نماز بھی پڑھے یا نہ پڑھے، اگر یہ معنی مراد لئے جائیں تو پھر دنیا میں کوئی شخص کافر ہی نہیں رہ سکتا کیونکہ کبھی نہ کبھی ہر شخص کا منھ قبلہ کی طرف ہوہی جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ لفظ اہل قبلہ کی مراد تمام اوقات و احوال کا استیعاب باستقبال قبلہ نہیں ۔اہل قبلہ کی تعریف وتشریح خوب سمجھ لیجئے کہ لفظ اہل قبلہ ایک شرعی اصطلاح ہے جس کے معنی اہل اسلام کے ہیں اور اسلام وہی ہے جس میں کوئی بات کفر کی نہ ہو، لہٰذا یہ لفظ صرف ان لوگوں کے لیے بولاجاتاہے جو تمام ضروریاتِ دین کو تسلیم کریں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام احکام پر (بشرط ثبوت) ایمان لائیں ۔ نہ ہر اس شخص کے لیے جوقبلہ کی طرف منھ کرلے۔ جیسے دنیا کی موجودہ عدالتوں میں اہل کار کا لفظ صرف ان لوگوں کے لیے بولا جاتا ہے جو باضابطہ ملازم اور قوانینِ ملازمت کا پابند ہو۔ اس کے مفہوم لغوی کے موافق ہر کام والے آدمی کو اہل کار نہیں کہا جاتا۔ اور یہ جو کچھ لکھا گیا علم فقہ و عقائد کی کتابیں تقریباً تمام اس پر شاہد ہیں جن میں سے بعض عبارات درج ذیل ہیں ۔ حضرت ملا علی قاریؒ شرح فقہ اکبر میں فرماتے ہیں : اعلم ان المراد باہل القبلۃ الّذین اتفقوا علی ما ہو من