دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
قطعی الثبوت وقطعی الدلالۃ کی تشریح دوسری بات قابل غور یہ ہے کہ ثبوت کے اعتبار سے احکام اسلامیہ کی مختلف قسمیں ہو گئی ہیں ۔ تمام اقسام کا اس بارے میں ایک حکم نہیں ، کفر وارتداد صرف ان احکام کے انکار سے عائد ہوتا ہے جو قطعی الثبوت بھی ہوں اورقطعی الدلالت بھی۔ قطعی الثبوت ہونے کا مطلب تو یہ ہے کہ ان کا ثبوت قرآن مجید یا ایسی احادیث سے ہو جن کے روایت کرنے والے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک سے لے کر آج تک ہر زمانہ اور ہر قرن میں مختلف طبقات اور مختلف شہروں کے لوگ اس کثرت سے رہے ہوں کہ ان سب کا جھوٹی بات پر اتفاق کرلینا محال سمجھا جائے (اسی کو اصطلاحِ حدیث میں تواتر اور ایسی احادیث کو احادیث متواترہ کہتے ہیں )۔ اور قطعی الدلالۃ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جو عبارت قرآن مجید میں اس حکم کے متعلق واقع ہوئی ہے، یا حدیثِ متواترہ سے ثابت ہوئی ہے، وہ اپنے مفہوم ومراد کو صاف صاف ظاہر کرتی ہو اس میں کسی قسم کی الجھن نہ ہو کہ جس میں کسی کی تاویل چل سکے۔قطعیات و ضروریاتِ دین کا فرق پھر اس قسم کے احکام قطعیہ اگر مسلمانوں کے ہر طبقہ خاص و عام میں اس طرح مشہور و معروف ہوجائیں کہ ان کا حاصل کرنا کسی خاص اہتمام اور تعلیم و تعلم پر موقوف نہ رہے بلکہ عام طور پرمسلمانوں کو وراثۃً وہ باتیں معلوم ہوجاتی ہوں جیسے نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ کا فرض ہونا چوری، شراب خوری کا گناہ ہونا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خاتم الانبیاء ہونا وغیرہ تو ایسے احکام قطعیہ کو ضروریاتِ دین کے نام سے تعبیر کرتے ہیں ، اور جو اس درجہ مشہور نہ ہوں وہ صرف قطعیات کہلاتے ہیں ضروریات نہیں ۔