دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حکم قرآنی کی خلاف ورزی کی کہ مضامین قرآن کو بیان نہیں کیا، یا یہ کہ آپ نے تو بیان کیا تھا مگر وہ قائم و محفوظ نہیں رہا، بہر دو صورت قرآن بحیثیت معنی کے محفوظ نہ رہا، جس کی حفاظت کی ذمہ داری خود حق تعالیٰ نے اپنے ذمہ رکھی ہے ’’وَاِنَّا لَہٗ لَحَافِظُوْنَ‘‘ اس کا یہ دعویٰ اس نص قرآنی کے خلاف ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسلام کی حجت ماننے سے انکار کرتا ہے وہ در حقیقت قرآن ہی کا منکر ہے۔ نعوذ باللہ۔ (معارف القرآن ۵؍۳۳۷)قرآن کی تعریف میں حدیث بھی شامل ہے ’’اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہُ لَحَافِظُوْنَ‘‘۔ (پ:۱۴،سورۂ حجر) تمام اہل علم اس پر متفق ہیں کہ قرآن نہ صرف الفاظِ قرآنی کا نام ہے اور نہ صرف معانی قرآن کا بلکہ دونوں کے مجموعہ کو قرآن کہا جاتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ معانی اور مضامین قرآنیہ تو دوسری کتابوں میں بھی موجود ہے اور اسلامی تصانیف میں تو عموما مضامین قرآنیہ ہی ہوتے ہیں مگر ان کوقرآن نہیں کہا جاتا کیونکہ الفاظ قرآن کے نہیں ہیں ، اسی طرح اگر کوئی شخص قرآن کریم کے متفرق الفاظ یا جملے لے کر ایک مقالہ یا رسالہ لکھ دے اس کو بھی کوئی قرآن نہیں کہے گا، اگر چہ اس میں ایک لفظ بھی قرآن سے باہر کا نہ ہو، اس سے معلوم ہوا کہ قرآن صرف اس مصحف ربانی کا نام ہے، جس کے الفاظ و معانی ساتھ ساتھ محفوظ ہیں ۔ (معارف القرآن ۵؍۲۷۱)