دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
اترتا ہے یا نہیں اور نہ پھر اس طرف کوئی دھیان کیا کہ جو تعلیم یہ دے رہا ہے وہ قرآن و سنت کے مخالف تو نہیں ۔ (معارف القرآن ۲؍۶۲۳)معتدل راستہ شریعت اسلام نے غلو سے بچا کرا ن دونوں کے درمیان طریقہ کار یہ بتلایا کہ کتاب اللہ کو رجال اللہ سے سیکھو اور رجال اللہ کو کتاب اللہ سے پہچانو۔ یعنی قرآن و سنت کی مشہور تعلیمات کے ذریعہ پہلے ان لوگوں کو پہچانو جو کتاب وسنت کے علوم میں مشغول ہیں ، اور ان کی زندگی کتاب و سنت کے رنگ میں رنگی ہوئی ہے۔ پھر کتاب وسنت کے ہر الجھے ہوئے مسئلہ میں ان کی تفسیر و تشریح کو اپنی رائے سے مقدم سمجھو اور ان کا اتباع کرو۔ (معارف القرآن ۲؍۶۲۳، نساء)کسی کی تقلید کرنے کا شرعی معیار اور ائمہ مجتہدین کی تقلید کی حقیقت ’’اَوَلَوْ کَانَ اٰبَاؤُہُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ شَیْئًا وَّلَا یَہْتَدُوْن‘‘۔ (سورۂ مائدہ) قرآن کریم کے اس جملہ نے اقتداء کا نہایت معقول اور واضح معیار دو چیزوں کو بنایا ہے۔ علم اور اہتداء۔ علم سے مراد منزل مقصود اور اس تک پہنچنے کے طریقوں کا جاننا ہے اور اہتداء سے مراد اس مقصد کی راہ پر چلنا یعنی صحیح علم پر عمل مستقیم۔ خلاصہ یہ ہوا کہ جس شخص کو مقتداء بنانا ہو تو پہلے یہ دیکھو کہ جس مقصد کے لیے اس کو مقتداء بنایا ہے وہ اس مقصد اور اس طریق سے پوری طرح واقف بھی ہے یا نہیں پھر یہ دیکھو کہ وہ اس کی راہ پر چل بھی رہا ہے؟ اوراس کا عمل اپنے علم کے مطابق ہے یا نہیں ۔ غرض کسی کو مقتدا بنانے کے لیے علم صحیح اور عمل مستقیم کے معیار سے جانچنا ضروری