دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
اس مقام میں حق تعالیٰ نے پوری امت محمدیہ کے تین طبقے کئے ہیں ۔ مہاجرین، انصار، اور باقی تمام امت، مہاجرین و انصار کے خاص اوصاف اور فضائل بھی اس جگہ ذکر فرمائے مگر باقی امت کے فضائل اور اوصاف میں سے صرف ایک چیز یہ بتلائی کہ وہ صحابۂ کرام کی سبقت ایمانی اور ایمان کے ہم تک پہنچانے کا ذریعہ ہونے کو پہچانیں ، اور سب کے لیے دعاء مغفرت کریں اور اپنے لیے یہ دعا کریں کہ ہمارے دلوں میں کسی مسلمان سے کینہ و نفرت نہ رہے اس سے معلوم ہوا کہ صحابۂ کرام کے بعد والے جتنے مسلمان ہیں ان کا ایمان و اسلام قبول ہونے اور نجات پانے کے لیے یہ شرط ہے کہ وہ صحابۂ کرام کی عظمت و محبت اپنے دلوں میں رکھتے ہوں اور ان کے لیے دعا کرتے ہوں جس میں یہ شرط نہیں پائی جاتی وہ مسلمان کہلانے کے قابل نہیں ۔ اسی لیے حضرت مصعب بن سعدؓ نے فرمایا کہ امت کے تمام مسلمان تین درجوں میں ہیں جن میں دو درجے تو گزر چکے، یعنی مہاجرین و انصار، اب صرف ایک درجہ باقی رہ گیا یعنی وہ جو صحابۂ کرام سے محبت رکھے، ان کی عظمت پہچانے اب اگر تمہیں امت میں کوئی جگہ حاصل کرنی ہے تو اسی تیسرے درجہ میں داخل ہوجاؤ۔ قرطبی نے فرمایا کہ یہ آیت اس کی دلیل ہے کہ صحابۂ کرام کی محبت ہم پر واجب ہے۔ (معارف القرآن ۸؍۳۸۱)صحابۂ کرام کے فضائل اور ان کے متعلق حضور ﷺ کی ہدایات (۱) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’خیر القرون قرنی ثم الذین یلونہم ثم الذین یلونہم‘‘۔ (بخاری) یعنی تمام زمانوں میں میرا زمانہ بہتر ہے اس کے بعد اس زمانے کے لوگ بہتر ہیں ،جو میرے زمانہ کے متصل ہیں ، پھر وہ جو اِن کے متصل ہیں ۔