دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
بذات خود کبھی کسی نے حرام نہیں کہا لیکن اس وقت چونکہ علماء کھلی آنکھوں دیکھ رہے تھے کہ یہ علوم و فنون یا انگریزی زبان تنہا نہیں آئیں گے بلکہ ملحدانہ عقائد و نظریات اوردین بیزاری کی وبا ساتھ لائیں گے جس کا مشاہدہ بعد میں سب کو ہوگیا، اس لیے شروع میں انہوں نے اس وبا کو روکنے کی تدبیر کی اور بہت سے مسلمانوں کا ایمان بچالیا لیکن جب وبا عالمگیر ہوگئی تو پھر تدبیر بدل گئی اور وہ یہ کہ ان علوم و فنون یا اس زبان کو حتی الوسع ان بیماریوں سے پاک کرکے حاصل کرنے کی کوشش کی جائے ، غرض یہ مختلف حالات کی مختلف تدبیریں تھیں ، ٹھیٹھ معنی میں شرعی حکم کی تبدیلی نہیں ۔ (البلاغ ص:۴۲۷)فتوے کی عبارت عام فہم ہونا چاہئے جس کو مستفتی بآسانی سمجھ سکے حضرت والد صاحب قدس سرہ نے فتوی نویسی کے انداز میں بھی عام روش سے ہٹ کر اپنے زمانے کے حالات کے لحاظ سے اہم تبدیلیاں فرمائی ہیں ، آپ فرمایا کرتے تھے کہ مفتی کو یہ بات بھی مد نظر رکھنی چاہئے کہ اس فتوے کو مخاطب ٹھیک ٹھیک سمجھ لے اور نتیجہ تک پہنچنے میں دشواری نہ ہو، پہلے زمانہ میں چونکہ علم دین کا چرچا تھا اور علماء کی کثرت تھی اس لیے لوگ علمی فقہی اصطلاح و اسلوب سے اتنے نامانوس نہ تھے، چنانچہ مفتی صاحب اپنے جواب میں بلا تکلف فقہی اصطلاحات استعمال کرلیتے تھے، مستفتی خواہ عالم نہ ہو مگر ان اصطلاحات سے مانوس ہوتا تھا، اس لیے بحیثیت مجموعی مفتی کی مراد ٹھیک ٹھیک سمجھ لیتا تھا اور اگر کوئی بات خود نہ سمجھتا توہر بستی میں ایسے لوگ تھے جو اسے فتوی کا مطلب سمجھا سکیں ۔ اب ہماری شامت اعمال سے حالت یہ ہوگئی ہے کہ علم دین اورفقہ سے مناسبت باقی نہیں رہی اوراہل علم کی تعداد بھی کم ہوگئی ہے اس لیے اب اگر سوال کرنے والا کوئی