دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
معصیت ہی کا ارتکاب سمجھا جاتا ہے، اس لیے باتفاق حرام ہیں ۔سبب قریب کا حکم ایسے اسباب معصیت کا ارتکاب گویا خود معصیت ہی کا ارتکاب ہے، اس لیے معصیت کی نسبت اس شخص کی طرف کی جائے گی جس نے اس کے سبب کا ارتکاب کیا کسی فاعل مختار کے درمیان حائل ہونے سے معصیت کی نسبت اس سے منقطع نہیں ہوگی، جیسا کہ حدیث میں دوسرے شخص کے ماں باپ کو گالی دینے والے کے حق میں اپنے والدین کو گالی دینے والا کہا گیا ہے کیونکہ ایسا تسبب للمعصیت بنص قرآنی و حدیث خود ایک معصیت ہے۔سبب قریب کی دوسری قسم دوسری قسم سبب قریب کی وہ ہے کہ بنے تو سبب قریب مگر معصیت کے لیے متحرک نہیں بلکہ صدور معصیت کسی دوسرے فاعل مختار کے اپنے فعل سے ہوتا ہے جیسے ’’بیع عصیر عنب ممن یتخذہ خمراً‘‘ یا ’’اجـارۃ ممن یتـعـبد فـیہـا الاصنام‘‘ وغیرہ کو یہ بیع واجارہ اگر چہ ایک حیثیت سے سبب قریب ہے معصیت کا مگر جالب اور محرک للمعصیۃ نہیں شیرہ انگور خریدنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس کو شراب ہی بنائے اور گھر کو کسی مشرک کے لیے کرایہ پر دینے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ اسی میں بت پرستی بھی کرے، بلکہ وہ اپنی خباثت یا جہالت سے اس گناہ میں مبتلا ہوتا ہے۔ شیرہ بیچنے والا یا مکان کرایہ دینے والا معصیت کا باعث اور محرک نہیں ہے، ایسے سبب قریب کا حکم یہ ہے کہ اگر بیچنے یا اجارہ پر دینے والے کا مقصد اس معصیت کا ہو تب تو یہ خود ارتکاب معصیت اور اعانت معصیت میں داخل ہوکر قطعاً حرام ہے اور اگر اس کا قصد و نیت شامل نہ ہو تو پھر اس کی دو صورتیں ہیں ، ایک یہ کہ اس کو علم بھی نہ ہو کہ یہ شخص شیرہ انگور خرید کر سرکہ بنائے گا،