دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
ان کے ساتھ حضرت ام سلمہ اور صفیہ رضی اللہ عنہما یہ سب حج کے لیے تشریف لے گئیں تھیں ، وہاں حضرت عثمان غنیؓ کی شہادت اور بغاوت کے واقعات سنے تو سخت غمگین ہوئیں اور مسلمانوں کے باہمی افتراق سے نظام مسلمین میں خلل اور فتنہ کا اندیشہ پریشان کئے ہوئے تھا، اسی حالت میں حضرت طلحہ اور زبیر اور نعمان بن بشیر اور کعب بن عجرہ اور چند دوسرے صحابہ کرام مدینہ سے بھاگ کر مکہ معظمہ پہنچے کیونکہ قاتلان عثمانؓ ان کے بھی قتل کے درپے تھے، یہ حضرات اہل بغاوت کے ساتھ شریک نہیں تھے، بلکہ ان کو ایسے فعل سے روکتے تھے، حضرت عثمان غنیؓ کے قتل کے بعد وہ ان کے بھی درپے تھے، اس لیے یہ لوگ جان بچا کر مکہ معظمہ پہنچ گئے اور ام المؤمنین حضرت عائشہؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مشورہ طلب کیا حضرت صدیقہؓ نے ان کو یہ مشورہ دیا کہ آپ لوگ اس وقت تک مدینہ طیبہ نہ جائیں جب تک کہ باغی لوگ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے گرد جمع ہیں ، اور وہ ان سے قصاص لینے سے مزید فتنہ کے اندیشہ کی وجہ سے رکے ہوئے ہیں تو آپ لوگ کچھ روز ایسی جگہ جاکر رہیں جہاں اپنے آپ کو مامون سمجھیں ، جب تک کہ امیر المؤمنین انتظام پر قابو نہ پالیں ، اور تم لوگ جو کچھ کوشش کرسکتے ہو اس کی کرو کہ یہ لوگ امیر المؤمنین کے گرد سے متفرق ہوجائیں ، اور امیر المؤمنین ان سے قصاص یا انتقام لینے پر قابو پالیں ۔ یہ حضرات اس پر راضی ہوگئے، اور ارادہ بصرہ چلے جانے کا کیا، کیونکہ اس وقت وہاں مسلمانوں کے لشکر جمع تھے، ان حضرات نے وہاں جانے کا قصد کرلیا تو ام المؤمنینؓ سے بھی درخواست کی کہ انتظام حکومت برقرار ہونے تک آپ بھی ہمارے ساتھ بصرہ میں قیام فرمائیں ۔ اور اس وقت قاتلانِ عثمان اور مفسدین کی قوت و شوکت اور حضرت علیؓ کا ان پر حد شرعی جاری کرنے سے بے قابو ہونا خود نہج البلاغہ کی روایت سے واضح ہے، یاد رہے