دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
معمولی ہجوم کے باوجود خود اپنے قلم سے نقل فرمایا ہے۔ (مولانا مفتی محمد تقی صاحب مدظلہ البلاغ ص ۴۰۲؍۴۰۳) حضرت والد صاحب فرمایا کرتے تھے کہ دوپہر کو جب مدرسہ میں کھانے اور آرام کا وقفہ ہوتاہے تو میں اکثر دارالعلوم کے کتب خانہ میں چلا جاتا وہ وقت ناظم کتب خانہ کے بھی آرام کا ہوتا تھا اس لئے ان کیلئے یہ ممکن نہ تھا کہ وہ میری وجہ سے چھٹی کے بعد تک بھی کتب خانہ میں بیٹھے رہیں چنانچہ میں نے انہیں بااصرار اس بات پر آمادہ کرلیا تھا کہ دوپہر کے وقفہ میں جب وہ گھر جانے لگیں تو مجھے کتب خانہ کے اندر چھوڑ کر باہرسے تالا لگاکر جائیں ، چنانچہ وہ ایسا ہی کرتے تھے اورمیں ساری دوپہر علم کے اس رنگا رنگ باغ کی سیر کرتا تھا۔ فرماتے تھے کہ دارالعلوم دیوبند کے کتب خانے کی کوئی کتاب ایسی نہیں تھی جو میری نظر سے نہ گذری ہو، اگر کسی کتاب کو میں نے پورا نہیں پڑھا تو کم از کم اس کی ورق گردانی ضرور کر لی تھی۔ (البلاغ ص ۳۶۷)وقت کی قدر وقیمت حضرت والد صاحب کوو قت کی قدر وقیمت کا بڑا احساس تھا اورآپ ہروقت اپنے آپ کو کسی نہ کسی کام میں مشغول رکھتے تھے اور حتی الامکان کوئی لمحہ فضول جانے نہیں دیتے تھے۔ آپ کے لئے سب سے زیادہ تکلیف کی بات یہ تھی کہ آپ کے وقت کا کوئی حصہ ضائع چلاجائے، آپ سنت کے مطابق گھر والوں کے ساتھ ضروری اوربسا اوقات تفریحی گفتگو کے لئے بھی وقت نکالتے تھے لیکن ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے آپ کے دل میں کوئی الارم لگا ہوا ہے جو ایک مخصوص حد تک پہنچنے کے بعد آپ کو کسی اور کام کی طرف متوجہ کردیتا ہے، چنانچہ گھر والوں کے حقوق ادا کرنے کے بعد آپ اپنے کام میں