دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
فصل آداب فتویٰ فتویٰ لکھنے سے پہلے چند قابل لحاظ امور حضرت والد صاحب فرمایا کرتے تھے کہ جس طرح کسی مسئلہ کا حکم معلوم کرنا ایک اہم کام ہے اسی طرح فتوی نویسی ایک مستقل فن ہے، جس میں مفتی کو بہت سی باتوں کی رعایت رکھنی پڑتی ہے۔ مثلاً سب سے پہلے مفتی کو یہ دیکھنا پڑتا ہے کہ مستفتی کا سوال قابل جواب ہے یا نہیں اور بعض اوقات سوال کے انداز سے یہ بات معلوم ہوجاتی ہے کہ اس کا مقصد عمل کرنا یا علم میں اضافہ کرنا نہیں بلکہ اپنے مخالف کو زیر کرنا ہے۔ یا حالات ایسے ہیں کہ اس سوال کے جواب سے فتنہ پیدا ہوسکتا ہے ایسی صورت میں استفتاء کے جواب سے گریز کرنا مناسب ہوتا ہے مثلاً ایک مرتبہ سوال آیا کہ ہمارے مسجد کے امام صاحب فلاں فلاں آداب کا خیال نہیں رکھتے، آیا انہیں ایسا کرنا چاہئے یا نہیں ؟ سوال کسی مقتدی کی طرف سے تھا اور اس کے انداز سے حضرت والد صاحب کو یہ غالب گمان ہوگیا کہ اس استفتاء کا مقصد امام صاحب کو حق کی دعوت دینا یا فہمائش کرنا نہیں بلکہ ان کی تحقیر اور ان کے بعض خلافِ احتیاط امور کی تشہیر ہے چنانچہ حضرت والد صاحب نے اس کے جواب میں تحریر فرمایا یہ سوال توخود امام صاحب کے پوچھنے کے ہیں ان سے کہئے وہ تحریراً یا زبانی معلوم فرمالیں ۔