دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
باہمی آویزش کو ہوا دینے کے اسلام کے بنیادی اور متفق علیہ مسائل پر لگ جائیں ، تو پھر ہماری جنگ، جو فساد کی صورت اختیار کرچکی ہے دوبارہ جہاد میں تبدیل ہوجائے گی، اور اس کے نتیجے میں عوام کا رُخ بھی باہمی جنگ و جدل سے پھر کر دین کی صحیح خدمت کی طرف ہوجائے گا۔ (اختلاف امت پر ایک نظر ۵؍۴۴۵، جواہر الفقہ)ہماری توانائیوں اور صلاحیتوں کا نہایت غلط استعمال ہمای ساری توانائی اور علم و تحقیق کا زور آپس کے اختلافی مسائل پر صرف ہوتا ہے، وہی ہمارے وعظوں ، جلسوں ، رسالوں اور اخباروں کا موضوع بحث بنتے ہیں ، ہمارے اس عمل سے عوام یہ سمجھنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ دین اسلام صرف ان دو چیزوں کا نام ہے اور جس رُخ کو انہوں نے اختیار کرلیا ہے، اس کے خلاف کو گمراہی اور اسلام دشمنی سے تعبیر کرتے ہیں جس کے نتیجہ میں ہماری وہ طاقت جو کفر والحاد اور بے دینی اور معاشرہ میں بڑھتی ہوئی بے جیائی کے مقابلہ پر خرچ ہوتی ، آپس کی جنگ و جدل میں خرچ ہونے لگتی ہے، اسلام و ایمان ہمیں جس محاذ پر لڑنے اور قربانی دینے کے لیے پکارتا ہے وہ محاذ دشمنوں کی یلغار کے لیے خالی پڑا نظر آتا ہے، ہمارا معاشرہ سماجی برائیوں سے پُر ہے، اعمال و اخلاق برباد ہیں ، معاملات ومعاہدات میں فریب ہے۔ سود قمار بازی، شراب، خنزیر، بے حیائی، بدکاری ہماری زندگی کے ہر شعبہ پر چھاگئے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ انبیاء کے جائز وارث اور ملک وملت کے نگہبانوں کو آج بھی اپنے سے نظریاتی اختلاف رکھنے والوں پر جتنا غصہ آتا ہے اس سے آدھا بھی ان خدا کے باغیوں پر کیوں نہیں آتا؟ اور آپس کے نظریاتی اختلاف کے وقت جس جوش ایمانی کا اظہار ہوتا ہے وہ ایمان کے اس اہم محاذ پر کیوں ظاہر نہیں ہوتا؟ ہمارا زورِ زبان اور زورِ قلم جس شان سے اپنے اختلافی مسائل میں جہاد کرتا ہے اس کا کوئی حصہ سرحدات