دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتہاد کی خصوصیت تیسری بات یہ معلوم ہوئی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اجتہاد دوسرے ائمہ مجتہدین کی طرح نہ تھا، جس میں غلطی اور خطاء کا احتمال ہمیشہ باقی رہتا ہے بلکہ جب آپ کوئی فیصلہ اپنے اجتہاد سے فرماتے تو اگر اس میں کوئی غلطی ہوجاتی تو حق تعالیٰ اس پر آپ کو متنبہ فرماکر آپ کے فیصلہ کو صحیح اور حق کے مطابق کرادیتے تھے، اور جب آپ نے کوئی فیصلہ اپنے اجتہاد سے کیا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے خلاف کوئی چیز نہ آئی تویہ علامت اس کی تھی کہ یہ فیصلہ اللہ تعالیٰ کوپسند ہے اور اس کے نزدیک صحیح ہے۔ (معارف القرآن ۲؍۵۴۲، نساء)اجتہاد و استنباط غلبۂ ظن کا فائدہ دیتا ہے علم یقینی کا نہیں استنباط سے جو حکم فقہاء نکالیں گے اس کے بارے میں قطعی طور پر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اللہ کے نزدیک قطعی طور پر یہی حق ہے بلکہ اس حکم کے خطاء ہونے کا بھی احتمال باقی رہتا ہے، ہاں اس کے صحیح ہونے کا ظن غالب حاصل ہوجاتا ہے جو عمل کے لیے کافی ہے۔ (تفسیر کبیر واحکام القرآن للجصاص، معارف ۲؍۴۹۴، نساء)کون سا اجتہاد صحیح اور معتبر ہے ’’اِنَّا اَنْزَلْنَا اِلَیْکَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ‘‘ سے دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اجتہاد رائے وہی معتبر ہے جو قرآنی اصول اور نصوص سے ماخوذ ہو، خالص رائے اور خیال معتبر نہیں ۔ اور نہ اس کو شریعت میں اجتہاد کہا جاسکتا ہے۔ (معارف القرآن ۲؍۵۴۲، نساء)