دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
صریح وحی سے ثابت ہوئے ہیں ، وہ بہ نسبت روز مرہ کے پیش آنے والے واقعات کے نہایت قلیل ہیں ، پس جب ان واقعات کے احکام وحی صریح سے معلوم نہ ہوئے (اب اگر اجماع وقیاس کو حجت نہ بنایا جائے) اور شریعت میں ان واقعات کے متعلق احکام نہ ہوں تو دین کامل نہیں رہتا، اس لیے ضروری ہے کہ اس امت کے مجتہدین کو وحی سے ان احکام کے استنباط کرنے کا حق حاصل ہو۔ الغرض جس طرح قرآن و حدیث سے احکام شرعیہ ثابت ہورہے ہیں اسی طرح بتصریح نصوص قرآن و حدیث اور باتفاق علماء امت اجماع سے قطعی احکام ثابت ہوتے ہیں ۔اجماع کے مختلف درجات البتہ اس میں چند درجات ہیں ، جن میں سب سے مقدم اور سب سے زیادہ قطعی اجماع صحابہؓ ہے، جس کے متعلق علمائے اصول کا اتفاق ہے کہ اگر کسی مسئلہ پر تمام صحابہ کی رائیں بالتصریح جمع ہوجائیں تو وہ بالکل ایسا ہی قطعی ہے جیسا کہ قرآن مجید کی آیات۔ اور اگر یہ صورت ہو کہ بعض نے اپنی رائے بیان فرمائی اور باقی صحابہ نے اس کی تردید نہ کی بلکہ سکوت اختیار کیا ، تو یہ بھی اجماع صحابہ میں داخل ہے، اور اس سے جو حکم ثابت ہو وہ بالکل ایسا ہی قطعی ہے جیسے احادیث متواترہ کے احکام قطعی ہوتے ہیں ۔ بلکہ اگر غور سے کام لیا جائے تو تمام ادلۂ شرعیہ میں سب سے زیادہ فیصلہ کن دلیل ہے، اور بعض حیثیات سے تمام حجج شرعیہ پر مقدم ہے، کیونکہ قرآن وسنت کے مفہوم ومعنی متعین کرنے میں رائیں مختلف ہوسکتی ہیں ، اجماع میں اس کی بھی گنجائش نہیں ، چنانچہ حافظ حدیث علامہ ابن تیمیہؒ تحریر فرماتے ہیں : واجماعہم حجۃ قاطعۃ یجب اتباعہا بل ہی اوکد الحجج وہی مقدمۃ علیٰ غیرہا ولیس ہذا موضع تقریر ذلک فان ہذا الأصل مقرر